سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: تفسیر قرآن کریم
39. باب وَمِنْ سُورَةِ ص
باب: سورۃ ص سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3232
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَعَبْدُ بْنُ حميد، المعنى واحد، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ عَبْدٌ هُوَ ابْنُ عَبَّادٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرِضَ أَبُو طَالِبٍ فَجَاءَتْهُ قُرَيْشٌ، وَجَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَ أَبِي طَالِبٍ مَجْلِسُ رَجُلٍ، فَقَامَ أَبُو جَهْلٍ كَيْ يَمْنَعَهُ وَشَكَوْهُ إِلَى أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، مَا تُرِيدُ مِنْ قَوْمِكَ، قَالَ: " إِنِّي أُرِيدُ مِنْهُمْ كَلِمَةً وَاحِدَةً تَدِينُ لَهُمْ بِهَا الْعَرَبُ وَتُؤَدِّي إِلَيْهِمْ الْعَجَمُ الْجِزْيَةَ "، قَالَ: كَلِمَةً وَاحِدَةً؟ قَالَ: " كَلِمَةً وَاحِدَةً؟ " قَالَ: " يَا عَمِّ، قُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ "، فَقَالُوا: إِلَهًا وَاحِدًا: مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلا اخْتِلاقٌ سورة ص آية 7، قَالَ: فَنَزَلَ فِيهِمُ الْقُرْآنُ: ص وَالْقُرْءَانِ ذِي الذِّكْرِ {1} بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ {2} إِلَى قَوْلِهِ مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلا اخْتِلاقٌ سورة ص آية 1 ـ 7. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَالَ يَحْيَى بْنُ عِمَارَةَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ابوطالب بیمار پڑے، تو قریش ان کے پاس آئے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آئے، ابوطالب کے پاس صرف ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ تھی، ابوجہل اٹھا کہ وہ آپ کو وہاں بیٹھنے سے روک دے، اور ان سب نے ابوطالب سے آپ کی شکایت کی، ابوطالب نے آپ سے کہا: بھتیجے! تم اپنی قوم سے کیا چاہتے ہو؟ آپ نے فرمایا: میں ان سے صرف ایک ایسا کلمہ تسلیم کرانا چاہتا ہوں جسے یہ قبول کر لیں تو اس کلمہ کے ذریعہ پورا عرب مطیع و فرماں بردار ہو جائے گا اور عجم کے لوگ انہیں جزیہ ادا کریں گے، انہوں نے کہا: ایک ہی کلمہ؟ آپ نے فرمایا: ہاں، ایک ہی کلمہ، آپ نے فرمایا: چچا جان! آپ لوگ «لا إلہ الا اللہ» کہہ دیجئیے، انہوں نے کہا: ایک معبود کو تسلیم کر لیں؟ یہ بات تو ہم نے اگلے لوگوں میں نہیں سنی ہے، یہ تو صرف بناوٹی اور (تمہاری) گھڑی ہوئی بات ہے، (ہم یہ بات تسلیم نہیں کر سکتے) ابن عباس کہتے ہیں: اسی پر ان ہی لوگوں سے متعلق سورۃ ص کی آیات «ص والقرآن ذي الذكر بل الذين كفروا في عزة وشقاق) إلى قوله (ما سمعنا بهذا في الملة الآخرة إن هذا إلا اختلاق» صٓ، اس نصیحت والے قرآن کی قسم، بلکہ کفار غرور و مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں، ہم نے ان سے پہلے بھی بہت سی امتوں کو تباہ کر ڈالا، انہوں نے ہر چند چیخ و پکار کی لیکن وہ چھٹکارے کا نہ تھا اور کافروں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ انہیں میں سے ایک انہیں ڈرانے والا آ گیا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے، کیا اس نے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کر دیا، واقعی یہ تو بہت ہی عجیب بات ہے، ان کے سردار یہ کہتے ہوئے چلے کہ چلو جی اور اپنے معبودوں پر جمے رہو یقیناً اس بات میں تو کوئی غرض ہے، ہم نے تو یہ بات پچھلے دین میں بھی نہیں سنی، کچھ نہیں یہ تو صرف گھڑنت ہے (ص: ۱-۷)، تک نازل ہوئیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- یحییٰ بن سعید نے بھی سفیان سے، سفیان نے اعمش سے اسی حدیث کے مثل حدیث بیان کی، اور یحییٰ بن سعید نے یحییٰ بن عباد کے بجائے یحییٰ بن عمارہ کہا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 5645، و5647) (ضعیف الإسناد) (سند میں یحییٰ بن عباد یا یحیی بن عمارہ لین الحدیث راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3232  
´سورۃ ص سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ابوطالب بیمار پڑے، تو قریش ان کے پاس آئے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آئے، ابوطالب کے پاس صرف ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ تھی، ابوجہل اٹھا کہ وہ آپ کو وہاں بیٹھنے سے روک دے، اور ان سب نے ابوطالب سے آپ کی شکایت کی، ابوطالب نے آپ سے کہا: بھتیجے! تم اپنی قوم سے کیا چاہتے ہو؟ آپ نے فرمایا: میں ان سے صرف ایک ایسا کلمہ تسلیم کرانا چاہتا ہوں جسے یہ قبول کر لیں تو اس کلمہ کے ذریعہ پورا عرب مطیع و فرماں بردار ہو جائے گا اور عجم کے لوگ انہیں جزیہ ادا کریں گے، انہوں نے کہا: ایک ہی کلمہ؟ آپ نے فرمایا: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3232]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
صٓ،
اس نصیحت والے قرآن کی قسم،
بلکہ کفارغرورومخالفت میں پڑے ہوئے ہیں،
ہم نے ان سے پہلے بھی بہت سی امتوں کو تباہ کر ڈالا،
انہوں نے ہر چند چیخ وپکار کی لیکن وہ چھٹکارے کا نہ تھا اور کافروں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ انہیں میں سے ایک انہیں ڈرانے والا آ گیا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے،
کیا اس نے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کر دیا،
واقعی یہ تو بہت ہی عجیب بات ہے،
ان کے سردار یہ کہتے ہوئے چلے کہ چلو جی اور اپنے معبودوں پر جمے رہو یقیناً اس بات میں تو کوئی غرض ہے،
ہم نے تو یہ بات پچھلے دین میں بھی نہیں سنی،
کچھ نہیں یہ تو صرف گھڑنت ہے (ص: 1-7)

نوٹ:
(سند میں یحییٰ بن عباد یا یحیی بن عمارہ لین الحدیث راوی ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3232   
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، نَحْوَهُ، عَنِ الْأَعْمَشِ.
‏‏‏‏ اس سند سے سفیان ثوری نے اعمش سے اسی طرح روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد