صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
119. بَابُ الْجَعَائِلِ وَالْحُمْلاَنِ فِي السَّبِيلِ:
باب: کسی کو اجرت دے کر اپنے طرف سے جہاد کرانا اور اللہ کی راہ میں سواری دینا۔
حدیث نمبر: 2971
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَوَجَدَهُ يُبَاعُ، فَأَرَادَ أَنْ يَبْتَاعَهُ، فَسَأَل رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" لَا تَبْتَعْهُ، وَلَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اللہ کے راستے میں اپنا ایک گھوڑا سواری کے لیے دے دیا تھا۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ وہی گھوڑا بک (فروخت ہو) رہا ہے۔ اپنے گھوڑے کو انہوں نے خریدنا چاہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے نہ خریدو۔ اور اس طرح اپنے صدقہ کو واپس نہ لو۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 286  
´صدقہ دے کر واپس لینے کی وعید`
«. . . وبه: أن عمر بن الخطاب حمل على فرس عتيق فى سبيل الله، فوجده يباع، فأراد أن يبتاعه فسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: لا تبتعه ولا تعد فى صدقتك . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اللہ کے راستے میں ایک بہترین گھوڑا صدقہ کیا تھا، پھر دیکھا کہ وہ گھوڑا بیچا جا رہا ہے تو اسے خریدنے کا ارادہ کیا، پھر انہوں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے نہ خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 286]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2971، ومسلم 1620، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ نیز دیکھئے: [حديث: 214]
② جو شخص کسی کو صدقہ دے تو اسے واپس (یعنی دوبارہ) خرید نہیں سکتا۔
③ جسے صدقہ دیا جائے وہ ضرورت کے وقت اسے بیچ سکتا ہے۔
④ صدقہ واپس لینا جائز نہیں ہے۔
⑤ شریعت نے حیل (حیلہ بازی) کا سدباب کیا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 214   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2392  
´صدقہ کر دینے کے بعد کیا اسے بکتا ہوا پا کر خرید سکتا ہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک گھوڑا صدقہ کیا، پھر دیکھا کہ اس کا مالک اس کو کم دام میں بیچ رہا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا صدقہ مت خریدو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2392]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خریدنا اگرچہ واپس لینا نہیں ہے لیکن اس سے ظاہری طور پرمشابہت رکھتا ہے اس لیے اس بھی منع کردیا گیا تاکہ یہ صدقہ واپس لینےکا ایک حیلہ نہ بن جائے۔

(2)
صدقہ کی ہوئی چیز واپس خریدنے کی خواہش سےمعلوم ہوتا ہے کہ ابھی دل اس میں اٹکا ہوا ہے۔
یہ مناسب نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں جو کچھ دے دیا، دےدیا، اب دوبارہ حصول کی خواہش کیوں کی جائے۔

(3)
صدقہ کی ہوئی چیز جب سستی مل رہی ہوتو جتنی رقم کم خرچ کی گویا اتنی رقم صدقہ دے کر اپنی چیز واپس لےلی اس لیے یہ جائز نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2392   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 668  
´صدقہ دے کر واپس لینے کی کراہت کا بیان۔`
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں دیا، پھر دیکھا کہ وہ گھوڑا بیچا جا رہا ہے تو اسے خریدنا چاہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا صدقہ واپس نہ لو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 668]
اردو حاشہ:
1؎:
کیونکہ صدقہ دے کر واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے،
ظاہر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے اپنے دیئے ہوئے صدقے کے خریدنے کو حرام کہا ہے،
لیکن جمہور نے اسے کراہت تنزیہی پر محمول کیا ہے کیونکہ فی نفسہ اس میں کوئی قباحت نہیں،
قباحت دوسرے کی وجہ سے ہے کیونکہ بسا اوقات صدقہ دینے والا لینے والے سے جب اپنا صدقہ خریدتا ہے تو اس کے اس احسان کی وجہ سے جو صدقہ دے کر اس نے اس پر کیا تھا وہ قیمت میں رعایت سے کام لیتا ہے،
نیز بظاہر یہ حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ((لَا تَحِلُّ الصَّدقَةُ إلَّا لِخَمْسَةٍ:
 لِعَامِلٍ عَلَيْهَا أَوْ رَجُلِِ اِشْتَرَاهَا بِمَالِهِ...الحديث)
)
کے معارض ہے،
تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث کراہت تنزیہی پر محمول کی جائیگی اور ابو سعید رضی اللہ عنہ والی روایت بیان جواز پر،
یا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت نفل صدقے کے سلسلہ میں ہے اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت فرض صدقے کے بارے میں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 668   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1593  
´زکاۃ دے کر پھر اس کو خریدنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اللہ کی راہ میں ایک گھوڑا دیا، پھر اسے بکتا ہوا پایا تو خریدنا چاہا تو اور اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے مت خریدو، اپنے صدقے کو مت لوٹاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1593]
1593. اردو حاشیہ:
➊ جو مال اللہ کی راہ میں دے دیا ہو۔ پھر دوبارہ اس میں طمع نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اللہ سے اجر کی اُمید رکھنی چاہیے۔ (نیکی کردریا میں ڈال) کا یہی مفہوم ہے۔ بعض لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرکے اس کے معاملے پر نظر رکھتے ہیں۔ جو مناسب نہیں۔ اسی حدیث میں اسی لیے صدقہ شدہ مال کے خریدنے سے منع کیا گیا ہے۔ تاہم جہاں یہ بات نہ ہو وہاں جمہور کے نزدیک اس کا جواز ہے۔ جیسے کسی تیسرے شخص سے اسے خرید لیا جائے۔ یا وراثت میں وہ چیز اس کے پاس آجائے۔ [شرح سنن أبي داود۔ علامہ بدر الدین عینی: 294/6)
➋ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کسی بھی نئے اقدام سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرلیا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ زندگی کے تمام امور ضابطہ اسلام سے مربوط ہیں۔ چنانچہ ہر مسلمان کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اور قرآن وسنت سے رہنمائی لینی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1593   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2971  
2971. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کسی کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے گھوڑا دیا۔ پھر اسے فروخت ہوتا پایا تو اسے خرید نے کا ارادہ کیا۔ اس کے متعلق انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: اسے مت خرید اور اپنے صدقہ وخیرات میں رجوع نہ کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2971]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓنے وہ گھوڑا ایک شخص کو جہاد کے خیال سے بطور امداد دے دیا تھا۔
اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
بعد میں وہ شخص اس کو بازار میں بیچنے لگا جس کا ذکر روایت میں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2971   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2971  
2971. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کسی کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے گھوڑا دیا۔ پھر اسے فروخت ہوتا پایا تو اسے خرید نے کا ارادہ کیا۔ اس کے متعلق انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: اسے مت خرید اور اپنے صدقہ وخیرات میں رجوع نہ کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2971]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمرفاروق ؓنے جو گھوڑا اللہ کی راہ میں دیاتھا وہ وقف نہیں تھا بلکہ غازی کی ملکیت تھا۔
اگر وقف ہوتا تو اسے فروخت کرناجائز نہیں تھا۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان:
اپنا صدقہ واپس نہ لو۔
اس بات کی تائید کرتا ہے کہ وہ گھوڑا وقف نہیں تھا بلکہ غازی کی ملکیت تھا۔
اس طرح وہ اسے آگے فروخت کرنے کا حق دار ہوا کیونکہ آپ نے وہ گھوڑا کسی کو جہاد کے خیال سے بطورتعاون دیا تھا، اب وہ مجاہد اس میں تصرف کا حقدار ٹھہرا حتی کہ وہ اس کی خریدوفروخت کا بھی مستحق ہوا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2971