سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: تفسیر قرآن کریم
58. باب وَمِنْ سُورَةِ الْمُجَادَلَةِ
باب: سورۃ المجادلہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3300
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الْأَشْجَعِيُّ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ الثَّقَفِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلْقَمَةَ الْأَنْمَارِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً سورة المجادلة آية 12 قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تَرَى دِينَارًا؟ " قُلْتُ: لَا يُطِيقُونَهُ، قَالَ: " فَنِصْفُ دِينَارٍ؟ " قُلْتُ: لَا يُطِيقُونَهُ، قَالَ: " فَكَمْ؟ " قُلْتُ: شَعِيرَةٌ، قَالَ: " إِنَّكَ لَزَهِيدٌ "، قَالَ: فَنَزَلَتْ: ءَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ سورة المجادلة آية 13 الْآيَةَ، قَالَ: " فَبِي خَفَّفَ اللَّهُ عَنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ شَعِيرَةٌ: يَعْنِي وَزْنَ شَعِيرَةٍ مِنْ ذَهَبٍ، وَأَبُو الْجَعْدِ اسْمُهُ رَافِعٌ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت کریمہ: «يا أيها الذين آمنوا إذا ناجيتم الرسول فقدموا بين يدي نجواكم صدقة» اے ایمان والو! جب رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو (المجادلہ: ۱۲)، نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: تمہاری کیا رائے ہے، ایک دینار صدقہ مقرر کر دوں؟ میں نے کہا: لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے، آپ نے فرمایا: تو کیا آدھا دینار مقرر کر دوں؟ میں نے کہا: اس کی بھی طاقت نہیں رکھتے، آپ نے فرمایا: پھر کتنا کر دوں؟ میں نے کہا: ایک جو کر دیں، آپ نے فرمایا: تم تو بالکل ہی گھٹا دینے والے نکلے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی «أأشفقتم أن تقدموا بين يدي نجواكم صدقات» کیا تم اس حکم سے ڈر گئے کہ تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقے دے دیا کرو (المجادلہ: ۱۳)، علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: اللہ نے میری وجہ سے فضل فرما کر اس امت کے معاملے میں تخفیف فرما دی (یعنی اس حکم کو منسوخ کر دیا)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- علی رضی الله عنہ کے قول «شعيرة» سے مراد ایک جو کے برابر ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10249) (ضعیف الإسناد) (سند میں علی بن علقمہ لین الحدیث راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3300  
´سورۃ المجادلہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت کریمہ: «يا أيها الذين آمنوا إذا ناجيتم الرسول فقدموا بين يدي نجواكم صدقة» اے ایمان والو! جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو (المجادلہ: ۱۲)، نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: تمہاری کیا رائے ہے، ایک دینار صدقہ مقرر کر دوں؟ میں نے کہا: لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے، آپ نے فرمایا: تو کیا آدھا دینار مقرر کر دوں؟ میں نے کہا: اس کی بھی طاقت نہیں رکھتے، آپ نے فرمایا: پھر کتنا کر دوں؟ میں نے ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3300]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے ایمان والو! جب رسول اللہ (ﷺ) سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو (المجادلة: 12)

2؎:
کیا تم اس حکم سے ڈر گئے کہ تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقے دے دیا کرو(المجادلة: 13)

نوٹ:
(سند میں علی بن علقمہ لین الحدیث راوی ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3300