سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: تفسیر قرآن کریم
59. باب وَمِنْ سُورَةِ الْحَشْرِ
باب: سورۃ الحشر سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3302
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " حَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقَطَّعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ سورة الحشر آية 5 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجور کے درخت جلا دئیے اور کاٹ ڈالے، اس جگہ کا نام بویرہ تھا، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» جو ان کے درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر قائم (و سالم) چھوڑ دیا یہ سب کچھ اذن الٰہی سے تھا، اور اس لیے بھی تھا کہ اللہ ایسے فاسقوں کو رسوا کرے (الحشر: ۵)، نازل فرمائی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المزارعة 4 (2356)، والجھاد 154 (3020)، والمغازي 14 (3960)، صحیح مسلم/الجھاد 10 (1746)، سنن ابی داود/ الجھاد 91 (2615)، سنن ابن ماجہ/الجھاد (2844)، وسنن الدارمی/السیر 23 (2503) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ غزوہ بنو نضیر کا واقعہ ہے، جس میں ایک جنگی مصلحت کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے بعض کھجور کے درختوں کو کاٹ ڈالنے کا حکم دیا تھا، اس پر یہودیوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا تھا کہ دیکھو محمد دین الٰہی کے دعویدار بنتے ہیں، بھلا دین الٰہی میں پھلدار درختوں کو کاٹ ڈالنے کا معاملہ جائز ہو سکتا ہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا کہ یہ سب اللہ کے حکم سے کسی مصلحت کے تحت ہوا (ایک خاص مصلحت یہ تھی کہ یہ مسلمانوں کی حکومت اور غلبے کا اظہار تھا)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2844)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2844  
´دشمن کی سر زمین کو آگ لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو نضیر کے کھجور کا باغ جلا دیا، اور کاٹ ڈالا، اس باغ کا نام بویرہ تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة» یعنی تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پہ باقی رہنے دیا یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا، اور اس لیے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے (سورۃ الحشر: ۵)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2844]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
یہودیوں نے نبی اکرمﷺ سے معاہدہ کیا تھا کہ کفار مکہ کے خلاف مسلمانوں کی مدد کریں گے لیکن انہوں نے عہد شکنی کی اور قبیلہ بنو نضیر نے نبی اکرم ﷺ کو شہید کرنے کی سازش بھی کی۔
اس عہد شکنی کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے ان پر لشکر کشی کی۔
وہ کچھ عرصہ اپنے قلعوں میں محصور رہے لیکن آخر جان بخشی کی صورت میں جلاوطنی پر آمادہ ہوگئے۔

(2)
اس محاصرے کے دوران میں مسلمانوں نے بنو نضیر کے کچھ درخت کاٹ ڈالے اور کچھ جلادیے تاکہ دشمنوں کی آڑ ختم ہو اور وہ اپنے باغوں کو اجڑتا دیکھ کر مقابلے کے لیے میدان میں آئیں۔

(3)
رسول اللہ ﷺ کے افعال اور صحابہ کے وہ افعال جو رسول اللہﷺکی اجازت سے کیےگئےہوں وہ شرعی طور پر جواز کی دلیل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2844   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1098  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نصیر کے کھجوروں کے درخت نذر آتش کروا دیئے اور کٹوا دیئے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1098»
تخریج:
«أخرجه البخاري، المغازي، باب حديث بني النضير...، حديث:4031، مسلم، الجهاد والسير، باب جواز قطع اشجار الكفار و تحريقها، حديث:1746.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ناگزیر جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلانا یا کٹوانا جائز ہے۔
مگر عام حالات میں بلا ضرورت انھیں کاٹنے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1098   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3302  
´سورۃ الحشر سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجور کے درخت جلا دئیے اور کاٹ ڈالے، اس جگہ کا نام بویرہ تھا، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» جو ان کے درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر قائم (و سالم) چھوڑ دیا یہ سب کچھ اذن الٰہی سے تھا، اور اس لیے بھی تھا کہ اللہ ایسے فاسقوں کو رسوا کرے (الحشر: ۵)، نازل فرمائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3302]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جو ان کے درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر قائم (وسالم) چھوڑ دیا یہ سب کچھ اذن الٰہی سے تھا،
اور اس لیے بھی تھا کہ اللہ ایسے فاسقوں کو رسوا کرے (الحشر: 5)

2؎:
یہ غزوئہ بنونضیرکا واقعہ ہے،
جس میں ایک جنگی مصلحت کے تحت نبیﷺنے بنونضیرکے بعض کھجورکے درختوں کو کاٹ ڈالنے کا حکم دیا تھا،
اس پر یہودیوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا تھاکہ دیکھومحمد دین الٰہی کے دعویدار بنتے ہیں،
بھلا دین الٰہی میں پھلدار درختوں کو کاٹ ڈالنے کا معاملہ جائز ہو سکتا ہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا کہ یہ سب اللہ کے حکم سے کسی مصلحت کے تحت ہوا (ایک خاص مصلحت یہ تھی کہ یہ مسلمانوں کی حکومت اور غلبے کا اظہار تھا)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3302   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1552  
´دوران جنگ کفار و مشرکین کے گھر جلانے اور ویران کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا اور کٹوا دیئے ۱؎، یہ مقام بویرہ کا واقعہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» (مسلمانو!)، (یہود بنی نضیر کے) کھجوروں کے درخت جو کاٹ ڈالے ہیں یا ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور اپنے تنوں پر ہی ان کو کھڑا چھوڑ دیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اللہ عزوجل کو منظور تھا کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے (الحشر: ۵)۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1552]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلوانا اور کٹوانا جائز ہے،
لیکن بلاضرورت عام حالات میں انہیں کاٹنے سے بچنا چاہئے۔

2؎:
یعنی جب اسلامی لشکر کے لیے کچھ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ درختوں کے جلانے اور مکانوں کے ویران کرنے کے سوا ان کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ایسا کرناجائز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1552   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2615  
´دشمنوں کے کھیت اور باغات کو آگ لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے کھجوروں کے باغات جلا دیے اور درختوں کو کاٹ ڈالا (یہ مقام بویرہ میں تھا) تو اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها» کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے، یا اپنی جڑوں پر انہیں قائم رہنے دیا، یہ سب اللہ کے حکم سے تھا (سورۃ الحشر: ۵)۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2615]
فوائد ومسائل:
جنگی ضرورت اور مصلحت کے تحت آگ لگانا یا مکانات گرانا جائز ہے۔
محض فساد پھیلانے کی نیت سے جائز نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2615