سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: تفسیر قرآن کریم
60. باب وَمِنْ سُورَةِ الْمُمْتَحَنَةِ
باب: سورۃ الممتحنہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3306
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْتَحِنُ إِلَّا بِالْآيَةِ الَّتِي قَالَ اللَّهُ: إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ سورة الممتحنة آية 12 الْآيَةَ " قَالَ مَعْمَرٌ، فَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " مَا مَسَّتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَ امْرَأَةٍ إِلَّا امْرَأَةً يَمْلِكُهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا امتحان نہیں لیا کرتے تھے مگر اس آیت سے جس میں اللہ نے «إذا جاءك المؤمنات يبايعنك» اے مومنوا! جب تمہارے پاس مومن عورتیں (مکہ سے) ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو، اللہ تو ان کے ایمان کو جانتا ہی ہے، اگر تم یہ جان لو کہ یہ واقعی مومن عورتیں ہیں تو ان کو ان کے کافر شوہروں کے پاس نہ لوٹاؤ، نہ تو وہ کافروں کے لیے حلال ہیں نہ کافر ان کے لیے حلال ہیں (الممتحنۃ: ۱۰)، کہا ہے ۱؎۔ معمر کہتے ہیں: ابن طاؤس نے مجھے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ ان کے باپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے اس عورت کے سوا جس کے آپ مالک ہوتے کسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر: صحیح البخاری/الأحکام 49 (7214) (تحفة الأشراف: 16640) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اور امتحان لینے کا مطلب یہ ہے کہ کافر ہوں اور اپنے شوہروں سے ناراض ہو کر، یا کسی مسلمان کے عشق میں گرفتار ہو کر آئی ہوں، اور جب تحقیق ہو جائے تب بھی صلح حدیبیہ کی شق کے مطابق ان عورتوں کو واپس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مسلمان عورت کافر مرد کے لیے حرام ہے، (مردوں کو بھلے واپس کیا جائے گا)
۲؎: اس سے اشارہ اس بات کا ہے کہ آپ عورتوں سے بیعت زبانی لیتے تھے، اور بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر رکھ کر بیعت لیا وہ اکثر مرسل روایات ہیں، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے اپنے اور ان کے ہاتھوں کے درمیان کوئی حائل (موٹا کپڑا وغیرہ) رکھا ہو، جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے «لیس فی نسخۃالالبانی، وہوضعیف لأجل أبی نصرالاسدی فہومجہول» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3306  
´سورۃ الممتحنہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا امتحان نہیں لیا کرتے تھے مگر اس آیت سے جس میں اللہ نے «إذا جاءك المؤمنات يبايعنك» اے مومنوا! جب تمہارے پاس مومن عورتیں (مکہ سے) ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو، اللہ تو ان کے ایمان کو جانتا ہی ہے، اگر تم یہ جان لو کہ یہ واقعی مومن عورتیں ہیں تو ان کو ان کے کافر شوہروں کے پاس نہ لوٹاؤ، نہ تو وہ کافروں کے لیے حلال ہیں نہ کافر ان کے لیے حلال ہیں (الممتحنۃ: ۱۰)، کہا ہے ۱؎۔ معمر کہتے ہیں: ابن طاؤس نے مجھے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ ان کے ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3306]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے مومنوا! جب تمہارے پاس مومن عورتیں (مکہ سے) ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو،
اللہ تو ان کے ایمان کو جانتا ہی ہے،
اگر تم یہ جان لو کہ یہ واقعی مومن عورتیں ہیں تو ان کو ان کے کافر شوہروں کے پاس نہ لوٹاؤ،
نہ تو وہ کافروں کے لیے حلال ہیں نہ کافر ان کے لیے حلال ہیں (الممتحنة: 10) اورامتحان لینے کا مطلب یہ ہے کہ کافر ہوں اور اپنے شوہروں سے ناراض ہو کر،
یا کسی مسلمان کے عشق میں گرفتار ہو کر آئی ہوں،
اور جب تحقیق ہو جائے تب بھی صلح حدیبیہ کی شق کے مطابق ان عورتوں کو واپس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مسلمان عورت کافرمرد کے لیے حرام ہے،
(مردوں کو بھلے واپس کیا جائیگا)
2؎:
اس سے اشارہ اس بات کا ہے کہ آپﷺ عورتوں سے بیعت زبانی لیتے تھے،
اور بعض روایات میں آتا ہے کہ آپﷺ نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھوں پررکھ کر بیعت لی وه اکثرمرسل روایات ہیں،
نیز یہ بھی ممکن ہے کہ آپﷺ نے اپنے اور ان کے ہاتھوں کے درمیان کوئی حائل (موٹا کپڑا وغیرہ) رکھا ہو،
جیساکہ بعض روایات میں آتا ہے (لَیْسَ فِي نُسْخَةِ الألْبَانِي،
وهُوَضَعِیْفٌ لِأَجْلِ أَبِي نَصْرِالأَسدِي فَهُوَمَجْهُوْلٌ)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3306