سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: تفسیر قرآن کریم
63. باب وَمِنْ سُورَةِ الْمُنَافِقِينَ
باب: سورۃ منافقین سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3316
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو جَنَابٍ الْكَلْبِيُّ، عَنْ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " مَنْ كَانَ لَهُ مَالٌ يُبَلِّغُهُ حَجَّ بَيْتِ رَبِّهِ أَوْ تَجِبُ عَلَيْهِ فِيهِ الزَّكَاةُ فَلَمْ يَفْعَلْ سَأَلَ الرَّجْعَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ "، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، اتَّقِ اللَّهَ إِنَّمَا سَأَلَ الرَّجْعَةَ الْكُفَّارُ، قَالَ: سَأَتْلُو عَلَيْكَ بِذَلِكَ قُرْآنًا: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلا أَوْلادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ {9} وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِلَى قَوْلِهِ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ سورة المنافقون آية 8 ـ 11 قَالَ: فَمَا يُوجِبُ الزَّكَاةَ؟ قَالَ: إِذَا بَلَغَ الْمَالُ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَصَاعِدًا، قَالَ: فَمَا يُوجِبُ الْحَجَّ؟ قَالَ: الزَّادُ وَالْبَعِيرُ ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جس کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ حج بیت اللہ کو جا سکے یا اس پر اس میں زکاۃ واجب ہوتی ہو اور وہ حج کو نہ جائے، زکاۃ ادا نہ کرے تو وہ مرتے وقت اللہ سے درخواست کرے گا کہ اسے وہ دنیا میں دوبارہ لوٹا دے، ایک شخص نے کہا: ابن عباس! اللہ سے ڈرو، دوبارہ لوٹا دیئے جانے کی آرزو تو کفار کریں گے (نہ کہ مسلمین) ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: میں تمہیں اس کے متعلق قرآن پڑھ کر سناتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا «يا أيها الذين آمنوا لا تلهكم أموالكم ولا أولادكم عن ذكر الله ومن يفعل ذلك فأولئك هم الخاسرون وأنفقوا من ما رزقناكم من قبل أن يأتي أحدكم الموت» سے «والله خبير بما تعملون» اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں، اور جس نے ایسا کیا وہی لوگ ہیں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے، اور جو روزی ہم نے تمہیں دی ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے اور وہ کہنے لگے کہ اے میرے رب! کیوں نہ تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دے لیتا، اور نیک لوگوں میں سے ہو جاتا اور جب کسی کا مقررہ وقت آ جاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو سب معلوم ہے (المنافقین: ۹-۱۱)، تک۔ اس نے پوچھا: کتنے مال میں زکاۃ واجب ہو جاتی ہے؟ ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: جب مال دو سو درہم ۱؎ ہو جائے یا زیادہ، پھر پوچھا: حج کب واجب ہوتا ہے؟ کہا: جب توشہ اور سواری کا انتظام ہو جائے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5689) (ضعیف الإسناد) (سند میں ضحاک بن مزاحم کثیر الارسال ہیں، اور ابو جناب کلبی ضعیف راوی ہیں)»

وضاحت: ۱؎: یعنی ۵۹۵ گرام چاندی ہو جائے تو اس پر زکاۃ ہے، ۱۲ فیصد زکاۃ ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (5803) ، القسم الأول منه //
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3316  
´سورۃ منافقین سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جس کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ حج بیت اللہ کو جا سکے یا اس پر اس میں زکاۃ واجب ہوتی ہو اور وہ حج کو نہ جائے، زکاۃ ادا نہ کرے تو وہ مرتے وقت اللہ سے درخواست کرے گا کہ اسے وہ دنیا میں دوبارہ لوٹا دے، ایک شخص نے کہا: ابن عباس! اللہ سے ڈرو، دوبارہ لوٹا دیئے جانے کی آرزو تو کفار کریں گے (نہ کہ مسلمین) ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: میں تمہیں اس کے متعلق قرآن پڑھ کر سناتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا «يا أيها الذين آمنوا لا تلهكم أموالكم ولا أولادكم عن ذكر الله ومن يفعل ذلك فأولئك هم الخاسرون وأنفقوا من ما رزق۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3316]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں،
اور جس نے ایسا کیا وہی لوگ ہیں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے،
اور جو روزی ہم نے تمہیں دی ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے اور وہ کہنے لگے کہ اے میرے رب! کیوں نہ تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دے لیتا،
اور نیک لوگوں میں سے ہو جاتا اورجب کسی کا مقررہ وقت آ جاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو سب معلوم ہے (المنافقین: 9-11)

2؎:
یعنی 595 گرام چاندی ہو جائے تو اس پر زکاۃ ہے،
اڑھائی فیصد فیصد زکاۃ ہے۔

نوٹ:
(سند میں ضحاک بن مزاحم کثیر الارسال ہیں،
اور ابوجناب کلبی ضعیف راوی ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3316   
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي حَيَّةَ، عَنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ، وَقَالَ: هَكَذَا رَوَى سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي جَنَابٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلَهُ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، وَأَبُو جَنَابٍ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي حَيَّةَ وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ.
اس سند سے ضحاک نے ابن عباس رضی الله عنہما کے واسطہ سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی،
۲- ایسے ہی روایت کی سفیان بن عیینہ اور دوسروں نے، یہ حدیث ابوجناب سے، ابوجناب نے ضحاک سے، اور ضحاک نے ابن عباس رضی الله عنہما سے ان کے اپنے قول سے اور انہوں نے اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے، اور یہ عبدالرزاق کی روایت کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے، اور ابوجناب کا نام یحییٰ بن ابوحیہ ہے، اور وہ حدیث بیان کرنے میں قوی نہیں ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (5803) ، القسم الأول منه //