صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
123. بَابُ حَمْلِ الزَّادِ فِي الْغَزْوِ:
باب: سفر جہاد میں توشہ (خرچ وغیرہ) ساتھ رکھنا۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى}.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان «وتزودوا فإن خير الزاد التقوى» اپنے ساتھ توشہ لے جایا کرو پس بیشک عمدہ ترین توشہ تقویٰ ہے۔
حدیث نمبر: 2979
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، وَحَدَّثَتْنِي أَيْضًا فَاطِمَةُ، عَنْ أَسْمَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: صَنَعْتُ سُفْرَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ حِينَ أَرَادَ أَنْ يُهَاجِرَ إِلَى الْمَدِينَةِ، قَالَتْ: فَلَمْ نَجِدْ لِسُفْرَتِهِ وَلَا لِسِقَائِهِ مَا نَرْبِطُهُمَا بِهِ، فَقُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ:" وَاللَّهِ مَا أَجِدُ شَيْئًا أَرْبِطُ بِهِ إِلَّا نِطَاقِي، قَالَ: فَشُقِّيهِ بِاثْنَيْنِ فَارْبِطِيهِ بِوَاحِدٍ السِّقَاءَ وَبِالْآخَرِ السُّفْرَةَ فَفَعَلْتُ، فَلِذَلِكَ سُمِّيَتْ ذَاتَ النِّطَاقَيْنِ".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، نیز مجھ سے فاطمہ نے بھی بیان کیا، اور ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی ہجرت کا ارادہ کیا تو میں نے (والد ماجد سیدنا) ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر آپ کے لیے سفر کا ناشتہ تیار کیا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ جب آپ کے ناشتے اور پانی کو باندھنے کے لیے کوئی چیز نہیں ملی، تو میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بجز میرے کمر بند کے اور کوئی چیز اسے باندھنے کے لیے نہیں ہے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ پھر اسی کے دو ٹکڑے کر لو۔ ایک سے ناشتہ باندھ دینا اور دوسرے سے پانی، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، اور اسی وجہ سے میرا نام ذات النطاقین (دو کمر بندوں والی) پڑ گیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2979  
2979. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا تو میں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے گھر میں آپ کے لیے سفری کھانا تیار کیا۔ انھوں نےفرمایا: جب مجھے آپ کے توشہ دان اور پانی کے مشکیزے باندھنے کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو میں نے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اپنے کمر بند کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملتی جس سے میں انھیں باندھوں تو حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا: تم اپنے کمر بند کے دو حصے کر لو۔ ایک سے پانی کے ظرف کو باندھوں اور دوسرے سے توشہ دان کو۔ میں نے ایسا ہی کیا تو اس وجہ سے میرا نام ذات النطاقین رکھا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2979]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صاحبزادی کا نام اسماء ؓ ہے۔
یہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی والدہ ہیں۔
مکہ ہی میں اسلام لائیں۔
اس وقت تک صرف سترہ آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا۔
یہ حضرت عائشہ ؓ سے دس برس بڑی تھیں۔
اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی شہادت کے بعد ۷۳ھ میں بعمر ایک سو سال آپ نے مکہ ہی میں انتقال فرمایا۔
باب کا مطلب یوں ثابت ہوا کہ آپ ﷺ کے لئے اس نیک خاتون نے ہجرت کے سفر کے وقت ناشتہ تیار کیا۔
اسی سے ہر سفر میں خواہ حج کا سفر ہو یا جہاد کا راشن ساتھ لے جانے کا اثبات ہوا۔
خاص طور پر فوجوں کے لئے راشن کا پورا انتظام کرنا ہر متمدن حکومت کے لئے ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2979   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2979  
2979. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا تو میں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے گھر میں آپ کے لیے سفری کھانا تیار کیا۔ انھوں نےفرمایا: جب مجھے آپ کے توشہ دان اور پانی کے مشکیزے باندھنے کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو میں نے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اپنے کمر بند کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملتی جس سے میں انھیں باندھوں تو حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا: تم اپنے کمر بند کے دو حصے کر لو۔ ایک سے پانی کے ظرف کو باندھوں اور دوسرے سے توشہ دان کو۔ میں نے ایسا ہی کیا تو اس وجہ سے میرا نام ذات النطاقین رکھا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2979]
حدیث حاشیہ:
(سُفره)
وہ کھانا ہے جسے مسافر لوگ سفر میں اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں۔
اس وقت اسے عموماً چمڑے کے بنے ہوئے توشہ دان میں رکھا جاتا تھا اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے اس نیک خاتون نے سفر ہجرت کے لیے کھانا تیار کیا۔
اس سے ہر سفر میں خواہ وہ حج کا سفر ہو یا جہاد کا راشن ساتھ لے جانے کا اثبات ہوا اور ایسا کرنا توکل کے منافی نہیں جیسا کہ بعض صوفیا کا خیال ہے۔
یہ سفرہجرت تھا۔
سفر جہادکو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
فوج کے لیے راشن کا پورا انتظام کرنا ہر مہذب حکومت کے لیے ضروری ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2979