سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: تفسیر قرآن کریم
79. باب وَمِنْ سُورَةِ الشَّمْسِ وَضُحَاهَا
باب: سورۃ «والشمس وضحاھا» سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3343
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا يَذْكُرُ النَّاقَةَ وَالَّذِي عَقَرَهَا، فَقَالَ: " إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا سورة الشمس آية 12 " انْبَعَثَ لَهَا رَجُلٌ عَارِمٌ عَزِيزٌ مَنِيعٌ فِي رَهْطِهِ مِثْلُ أَبِي زَمْعَةَ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثُمَّ سَمِعْتُهُ يَذْكُرُ النِّسَاءَ، فَقَالَ: " إِلَامَ يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فَيَجْلِدُ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ وَلَعَلَّهُ أَنْ يُضَاجِعَهَا مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ "، قَالَ: ثُمَّ وَعَظَهُمْ فِي ضَحِكِهِمْ مِنَ الضَّرْطَةِ، فَقَالَ: " إِلَامَ يَضْحَكُ أَحَدُكُمْ مِمَّا يَفْعَلُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن اس اونٹنی کا (مراد صالح علیہ السلام کی اونٹنی) اور جس شخص نے اس اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے یہ آیت «إذ انبعث أشقاها» تلاوت کی، اس کام کے لیے ایک «شرِّ» سخت دل طاقتور، قبیلے کا قوی و مضبوط شخص اٹھا، مضبوط و قوی ایسا جیسے زمعہ کے باپ ہیں، پھر میں نے آپ کو عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: آخر کیوں کوئی اپنی بیوی کو غلام کو کوڑے مارنے کی طرح کوڑے مارتا ہے اور جب کہ اسے توقع ہوتی ہے کہ وہ اس دن کے آخری حصہ میں (یعنی رات میں) اس کے پہلو میں سوئے بھی، انہوں نے کہا: پھر آپ نے کسی کے ہوا خارج ہو جانے پر ان کے ہنسنے پر انہیں نصیحت کی، آپ نے فرمایا: آخر تم میں کا کوئی کیوں ہنستا (و مذاق اڑاتا) ہے جب کہ وہ خود بھی وہی کام کرتا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 17 (3377)، وتفسیر الشمس 1 (4942)، والنکاح 94 (5204)، والأدب 43 (6042)، صحیح مسلم/الجنة والنار 13 (2855)، سنن ابن ماجہ/النکاح 51 (1983) (تحفة الأشراف: 5294) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کوچیں کاٹنے والے بدبخت کے ذکر کے ساتھ اسلام کی دو اہم ترین اخلاقی تعلیمات کا ذکر ہے، ۱- اپنی شریک زندگی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور
۲- مجلس میں کسی کی ریاح زور سے خارج ہو جانے پر نہ ہنسنے کا مشورہ، کس حکیمانہ پیرائے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں باتوں کی تلقین کی ہے! قابل غور ہے، «فداہ أبی وأمی» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1983)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1983  
´عورتوں کو مارنے پیٹنے کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، پھر عورتوں کا ذکر کیا، اور مردوں کو ان کے سلسلے میں نصیحت فرمائی، پھر فرمایا: کوئی شخص اپنی عورت کو لونڈی کی طرح کب تک مارے گا؟ ہو سکتا ہے اسی دن شام میں اسے اپنی بیوی سے صحبت کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1983]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عورتوں کو غلطی پر تنبیہ کرناضروری ہے لیکن یہ صرف زبانی ہونی چاہیے۔
اگر کوئی عورت زیادہ ہی بے پروا اور گستاخ ہو تو اس سے ناراض ہو جائے، یہ سزا کافی ہے۔
جسمانی سزا صرف اس وقت جائز ہےجب اس سوا چارہ نہ رہے۔

(2)
لونڈی کی طرح پیٹنے کا یہ مطلب نہیں کہ لونڈی کو بے تحاشا مارنا جائز ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جس طرح لوگ لونڈیوں کومارتے ہیں، آپ کو اپنی بیویوں سے ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔

(3)
مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔
ان کے ساتھ زندگی بھر کا ساتھ ہے۔
اس چیز کو پیش نظر رکھتے ہو ئے عورتوں پر ناجائز سختی نہیں کرنی چا ہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1983   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 913  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح نہ مارے۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 913»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب ما يكره من ضرب النساء، حديث:5204.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«حضرت عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ عبد اللہ بن زمعہ بن اسود بن عبدالمطلب بن اسد بن عبدالعزیٰ اسدی۔
مشہور صحابی ہیں۔
ان کا شمار اہل مدینہ میں ہوتا ہے۔
یہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے روز شہید ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 913   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3343  
´سورۃ «والشمس وضحاھا» سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن اس اونٹنی کا (مراد صالح علیہ السلام کی اونٹنی) اور جس شخص نے اس اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے یہ آیت «إذ انبعث أشقاها» تلاوت کی، اس کام کے لیے ایک «شرِّ» سخت دل طاقتور، قبیلے کا قوی و مضبوط شخص اٹھا، مضبوط و قوی ایسا جیسے زمعہ کے باپ ہیں، پھر میں نے آپ کو عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: آخر کیوں کوئی اپنی بیوی کو غلام کو کوڑے مارنے کی طرح کوڑے مارتا ہے اور جب کہ اسے توقع ہوتی ہے کہ وہ اس دن کے آخری حصہ میں (یعنی رات میں) اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3343]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کوچیں کاٹنے والے بدبخت کے ذکر کے ساتھ اسلام کی دو اہم ترین اخلاقی تعلیمات کا ذکر ہے۔ 1۔
اپنی شریک زندگی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور 2۔
مجلس میں کسی کی ریاح زورسے خارج ہو جانے پر نہ ہنسنے کا مشورہ،
کس حکیمانہ پیرائے میں آپﷺ نے دونوں باتوں کی تلقین کی ہے! قابلِ غور ہے،
فداہ أبي وأمي۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3343