صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
123. بَابُ حَمْلِ الزَّادِ فِي الْغَزْوِ:
باب: سفر جہاد میں توشہ (خرچ وغیرہ) ساتھ رکھنا۔
حدیث نمبر: 2981
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى، قَالَ: أَخْبَرَنِي بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ، أَنَّ سُوَيْدَ بْنَ النُّعْمَانِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ خَيْبَرَ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالصَّهْبَاءِ وَهِيَ مِنْ خَيْبَرَ وَهِيَ أَدْنَى خَيْبَرَ فَصَلَّوْا الْعَصْرَ، فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْأَطْعِمَةِ، فَلَمْ يُؤْتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بِسَوِيقٍ، فَلُكْنَا فَأَكَلْنَا وَشَرِبْنَا، ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَمَضْمَضَ وَمَضْمَضْنَا وَصَلَّيْنَا".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے بشیر بن یسار نے خبر دی اور انہیں سوید بن نعمان نے خبر دی کہ خیبر کی جنگ کے موقع پر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے تھے۔ جب لشکر مقام صہباء پر پہنچا جو خیبر کا نشیبی علاقہ ہے تو لوگوں نے عصر کی نماز پڑھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا منگوایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ستو کے سوا اور کوئی چیز نہیں لائی گئی اور ہم نے وہی ستو کھایا اور پیا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کی۔ ہم نے بھی کلی کی اور نماز پڑھی۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 215  
´بغیر حدث کے وضو برقرار رہتا ہے`
«. . . سُوَيْدُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ خَيْبَرَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالصَّهْبَاءِ صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، فَلَمَّا صَلَّى دَعَا بِالْأَطْعِمَةِ فَلَمْ يُؤْتَ إِلَّا بِالسَّوِيقِ، فَأَكَلْنَا وَشَرِبْنَا، ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَغْرِبِ فَمَضْمَضَ، ثُمَّ صَلَّى لَنَا الْمَغْرِبَ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ . . .»
. . . سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ نے بتلایا انہوں نے کہا کہ ہم خیبر والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جب صہباء میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی۔ جب نماز پڑھ چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے منگوائے۔ مگر (کھانے میں) صرف ستو ہی لایا گیا۔ سو ہم نے (اسی کو) کھایا اور پیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کی، پھر ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی اور (نیا) وضو نہیں کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 215]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
کئی علماء نے اختلاف فرمایا کہ ہر نماز کے لئے تجدید وضو لازم ہے کہ نہیں بعض اہل علم نے اس کو واجب قرار دیا ہے اور بعضوں نے اس کی نسخ کی طرف دلیل پیش کی ہے۔ امام الدارمی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
«لا وضؤ الا من حدث»
حدث کے بغیر وضو نہیں ہے۔
یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«وجذم بان الاجماع استقر على عدم الوجوب» [فتح الباري ج1 ص419]
یعنی بغیر حدث کے وضو برقرار رہتا ہے اسی مسئلے پر اجماع ہے۔

◈ شاہ ولی اللہ محدث رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
(ہر نماز کے لئے بغیر حدث کے نیا وضو کرنا) ثابت ہے استجاب کے طور پر نہ کہ واجب ہے۔ [شرح تراجم ابواب البخاري ص91]

◈ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نمازی کے لیے ایک وضو سے کئی نمازیں ادا کرنا پر اکتفا کیا گیا ہے جب تک کہ اس کا وضو نہ ٹوٹے، اور یہ وہ حکم ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض قرار نہیں دیا بلکہ (ہر نماز کے لئے بغیر حدث کے وضو کرنا) فضیلت کو حاصل کرنا ہے۔ [عمدة القاري ج2 ص170]

ان اقتباسات پر غور کرنے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ ہر نماز کے لئے وضو بغیر حدث کے واجب نہیں مگر افضلیت کو پانا ہے۔ لہٰذا حدیث اور باب میں مناسبت یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ بغیر حدث کے وضو پر وضو کرنا افضلیت تو ہے پر واجب نہیں اس موقع پر دو احادیث کا ذکر فرمایا ایک سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنا مستحب عمل ہے اگرچہ اگلا وضو نہ ٹوٹا ہو دوسری حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ تازہ وضو کرنا کچھ واجب نہیں جب کہ اگلا وضو قائم ہو کیوں کہ دوسری حدیث اس مسئلے پر واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وضو سے دو نمازیں پڑھیں یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث کی مناسبت معلوم ہوتی ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 127   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5384  
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ النور میں) فرمانا کہ اندھے پر کوئی حرج نہیں اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ مریض پر...`
«. . . حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَلَمَّا كُنَّا بِالصَّهْبَاءِ، قَالَ يَحْيَى: وَهِيَ مِنْ خَيْبَرَ عَلَى رَوْحَةٍ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِطَعَامٍ فَمَا أُتِيَ إِلَّا بِسَوِيقٍ فَلُكْنَاهُ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ، ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَمَضْمَضَ وَمَضْمَضْنَا، فَصَلَّى بِنَا الْمَغْرِبَ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ"، قَالَ سُفْيَانُ: سَمِعْتُهُ مِنْهُ عَوْدًا وَبَدْءًا . . .»
. . . سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف (سنہ 7 ھ میں) نکلے جب ہم مقام صہباء پر پہنچے۔ یحییٰ نے بیان کیا کہ صہباء خیبر سے دوپہر کی راہ پر ہے تو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا طلب فرمایا لیکن ستو کے سوا اور کوئی چیز نہیں لائی گئی، پھر ہم نے اسی کو سوکھا پھانک لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی طلب فرمایا اور کلی کی، ہم نے بھی کلی کی۔ اس کے بعد آپ نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا (مغرب کے لیے کیونکہ پہلے سے باوضو تھے)۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے یحییٰ سے اس حدیث میں یوں سنا کہ آپ نے نہ ستو کھاتے وقت وضو کیا نہ کھانے سے فارغ ہو کر۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ: 5384]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5384کا باب: «بَابُ: {لَيْسَ عَلَى الأَعْمَى حَرَجٌ} إِلَى قَوْلِهِ: {لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب کے ذریعے یہ مقصد ہے کہ اکھٹے ہو کر کھانا پینا کیا جائے یا الگ الگ ہو کر۔ شرعی دلائل کے حوالے سے دونوں طریقے جائز ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کے ذریعے اسی چیز کو ثابت فرمایا ہے اور جو آیت نقل فرمائی ہے، اس میں یہ تصریح موجود ہے کہ:
«ليس عليكم جناح ان تأكلوا جميعا او اشتاتا»
آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ سب اکٹھے ہو کر کھاؤ یا الگ الگ۔
لہٰذا ترجمۃ الباب کی حدیث سے مناسبت واضح ہے، کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مل کر ستو پھانکا تھا، لہٰذا اس جزء کا بآسانی ترجمۃ الباب سے ربط موجود ہے، مگر آیت مبارکہ کا وہ حصہ جس میں نابینا، لنگڑے اور مریض کا ذکر ہے تو وہ اس حدیث میں کس طرح سے شامل ہوں گیں؟ کیونکہ بظاہر آیت مبارکہ کا یہ حصہ باب سے مناسبت نہیں رکھتا، لہٰذا اس کا جواب دیتے ہوئے ابن بطال رحمہ اللہ نے مھلب رضی اللہ عنہ سے نقل فرمایا کہ:
«مناسبة الاية لحديث سويد ما ذكره اهل التفسير انهم كانوا اذا اجتمعوا للأكل عذل الأعمى على حدة والاعرج على حدة والمريض على حدة لتقصيرهم عن أكل الأصحاء فكانوا يتحرجون أن يتفضلوا عليهم .» [فتح الباري لابن حجر: 452/10]
حدیث سوید کے ساتھ آیت کی مناسبت جو اہل تفسیر نے بیان کی کہ جب کھانے کے لیے جمع ہوتے تھے تو اندھوں کو الگ بٹھا لیتے، لنگڑوں کو الگ اور مریضوں کو الگ بٹھا لیتے تھے، تاکہ جو لوگ ایسے نہیں وہ ان سے زیادہ نہ کھا جائیں اور ان کی حق تلفی نہ ہو۔
یعنی ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو مجتمع ہو کر کھایا کرتے تھے تو ممکن ہے ان کے ساتھ نابینا حضرات، لنگڑے اور مریض وغیرہ بھی ہوں گے تو پس باب کی مناسبت ثابت ہوئی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 126   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 215  
´ہر نماز کے لیے نیا وضو مستحب ہے`
«. . . سُوَيْدُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ خَيْبَرَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالصَّهْبَاءِ صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، فَلَمَّا صَلَّى دَعَا بِالْأَطْعِمَةِ فَلَمْ يُؤْتَ إِلَّا بِالسَّوِيقِ، فَأَكَلْنَا وَشَرِبْنَا، ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَغْرِبِ فَمَضْمَضَ، ثُمَّ صَلَّى لَنَا الْمَغْرِبَ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ . . .»
. . . سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ نے بتلایا انہوں نے کہا کہ ہم خیبر والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جب صہباء میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی۔ جب نماز پڑھ چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے منگوائے۔ مگر (کھانے میں) صرف ستو ہی لایا گیا۔ سو ہم نے (اسی کو) کھایا اور پیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کی، پھر ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی اور (نیا) وضو نہیں کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 215]

تشریح:
دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ہر نماز کے لیے نیا وضو مستحب ہے۔ مگر ایک ہی وضو سے آدمی کئی نمازیں بھی پڑھ سکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 215   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 186  
´ستو کھا کر کلی کرنے کا بیان۔`
سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ خیبر کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، یہاں تک کہ جب لوگ مقام صہبا (جو خیبر سے قریب ہے) میں پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر ادا کی، پھر توشوں کو طلب کیا، تو صرف ستو لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، تو اسے گھولا گیا، آپ نے کھایا اور ہم نے بھی کھایا، پھر آپ مغرب کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے، آپ نے کلی کی اور ہم نے (بھی) کلی کی، پھر آپ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 186]
186۔ اردو حاشیہ:
➊ چونکہ ستو منہ میں رہ جاتے ہیں۔ کلی کے بغیر منہ صاف نہیں ہوتا، لہٰذا اس کے بعد کلی کر لینی چاہیے تاکہ منہ صاف ہو جائے اور نماز کی ادائیگی میں خلل نہ پڑے۔
➋ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کرنا ضروری نہیں۔
➌ سفر میں زاد راہ لینا تو کل کے منافی نہیں۔
➍ ایک وضو سے ایک سے زیادہ نمازیں پڑھنا درست ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 186   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث492  
´آگ پر پکی ہوئی چیز کے استعمال کے بعد وضو نہ کرنے کا بیان۔`
سوید بن نعمان انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی جانب نکلے، جب مقام صہباء ۱؎ میں پہنچے تو عصر کی نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا منگایا تو صرف ستو لایا گیا لوگوں نے اسے کھایا، پیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگایا، اور کلی کی، پھر اٹھے اور ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 492]
اردو حاشہ:
ستو، بھنے ہوئے جَو پیس کر بنائے جاتے ہیں اس لیے اس سے بھی ثابت ہوا کہ آگ سے تیار کردہ چیز کھا پی کر وضو کرنا ضروری نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 492   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2981  
2981. حضرت سوید بن نعمان ؓسے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ وہ غزوہ خیبر میں نبی ﷺ کے ہمراہ نکلے۔ جب مقام صہباء میں پہنچے۔۔۔ یہ مقام خیبر کے بہت قریب ہے۔۔۔ تو لوگوں نے نماز عصر پڑھی، نبی ﷺ نے کھانا طلب فرمایا تو نبی ﷺ کو صرف ستوپیش کیے گئے، ہم نے بھی انھیں پانی میں ملا کر منہ میں ڈالا۔ الغرض ہم نے انھیں کھایا اور پیا۔ اس کے بعد نبی ﷺ اٹھے اور کلی فرمائی۔ اور ہم نے بھی کلی کی اور نماز پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2981]
حدیث حاشیہ:

سفر میں راشن اور توشہ رکھنا اس لیے مستحسن ہے کہ یہ انسانی ضرورت ہے۔
اس قسم کی حاجات انسانی کا شریعت نے پورا پورا خیال رکھا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا کوئی سفر ایسا نہیں ہے جس میں آپ نے توشہ یا زاد سفر کا اہتمام نہ کیا ہو۔
چنانچہ اس حدیث میں ہے دوران سفر میں جب آپ کو کھانے کی ضرورت پڑی تو آپ کو ستو پیش کیے گئے۔
ستو کھانے اور پینے دونوں طرح کام آتے ہیں۔
جیسا کہ اس حدیث میں اس کی صراحت ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ستو استعمال کرنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2981