سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: تفسیر قرآن کریم
91. باب وَمِنْ سُورَةِ تَبَّتْ يَدَا
باب: سورۃ «تبت یدا» سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3363
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى الصَّفَا فَنَادَى: " يَا صَبَاحَاهُ "، فَاجْتَمَعَتْ إِلَيْهِ قُرَيْشٌ، فَقَالَ: " إِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ، أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنِّي أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ مُمَسِّيكُمْ، أَوْ مُصَبِّحُكُمْ، أَكُنْتُمْ تُصَدِّقُونِي؟ " فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا تَبًّا لَكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا (پہاڑ) پر چڑھ گئے، وہاں سے یا «صباحاه» ۱؎ آواز لگائی تو قریش آپ کے پاس اکٹھا ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرانے والا (بنا کر بھیجا گیا) ہوں، بھلا بتاؤ تو اگر میں تمہیں خبر دوں کہ (پہاڑ کے پیچھے سے) دشمن شام یا صبح تک تم پر چڑھائی کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ مجھے سچا جانو گے؟ ابولہب نے کہا کیا: تم نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا؟ تمہارا ستیاناس ہو ۲؎، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «تبت يدا أبي لهب وتب» ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہو گیا (تبت: ۱)، نازل فرمائی،
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 98 (1394)، والمناقب 13 (3525)، وتفیسر الشعراء 2 (4770)، وتفسیر سبا 2 (4801)، وتفسیر تبت یدا أبي لہب 1 (4971)، و2 (4972)، و3 (4973)، وصحیح مسلم/الإیمان 89 (208) (تحفة الأشراف: 5594) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ آواز عرب اس وقت لگایا کرتے تھے جب قبیلہ حملہ والوں کو کسی خاص اور اہم معاملہ کے لیے جمع کرنا ہوتا تھا۔
۲؎: دیگر روایات میں آتا ہے کہ لوگوں کے جمع ہو جانے پر پہلے آپ نے ان سے تصدیق چاہی کہ اگر میں ایسا کہوں تو کیا تم میری بات کی تصدیق کرو گے، نہیں؟ اس پر انہوں نے کہا، کیوں نہیں کریں گے، آپ ہمارے درمیان امین اور صادق مسلم ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی دعوت پیش کی اس دلیل سے کہ تب میری اس بات پر بھی تصدیق کرو اس پر ابولہب نے مذکورہ بات کہی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4971  
´اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرانا`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ يَا صَبَاحَاهْ . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` جب یہ آیت نازل ہوئی «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے اور اپنے گروہ کے ان لوگوں کو ڈرائیے جو مخلصین ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا: یاصباحاہ! قریش نے کہا یہ کون ہے، پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/بَابٌ: 4971]

تخريج الحديث:
[124۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 1 باب حدثنا يوسف 4971، مسلم 208]
لغوی توضیح:
«الصَّفَا» مکہ میں ایک مقام کا نام۔
«يَا صَبَاحَاه» یہ وہ کلمہ ہے جو فریاد کرنے والا پکارتا ہے یا لوگوں کو کسی اہم کام کے لیے جمع کرنے کی غرض سے پکارا جاتا ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 124   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3363  
´سورۃ «تبت یدا» سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا (پہاڑ) پر چڑھ گئے، وہاں سے یا «صباحاه» ۱؎ آواز لگائی تو قریش آپ کے پاس اکٹھا ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرانے والا (بنا کر بھیجا گیا) ہوں، بھلا بتاؤ تو اگر میں تمہیں خبر دوں کہ (پہاڑ کے پیچھے سے) دشمن شام یا صبح تک تم پر چڑھائی کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ مجھے سچا جانو گے؟ ابولہب نے کہا کیا: تم نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا؟ تمہارا ستیاناس ہو ۲؎، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «تبت يدا أبي لهب وتب» ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3363]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ آواز عرب اس وقت لگایا کرتے تھے جب قبیلہ حملہ والوں کو کسی خاص اوراہم معاملہ کے لیے جمع کرنا ہوتا تھا۔

2؎:
دیگر روایات میں آتا ہے کہ لوگوں کے جمع ہو جانے پر پہلے آپﷺ نے ان سے تصدیق چاہی کہ اگر میں ایسا کہوں تو کیا تم میری بات کی تصدیق کرو گے،
یا نہیں؟ اس پر انھوں نے کہا،
کیوں نہیں کریں گے،
آپﷺ ہمارے درمیان امین اور صادق مسلم ہیں،
اس پر آپ ﷺنے توحید کی دعوت پیش کی اس دلیل سے کہ تب میری اس بات پر بھی تصدیق کرو اس پر ابولہب نے مذکورہ بات کہی۔

3؎:
ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہو گیا (تبت: 1)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3363