صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
124. بَابُ حَمْلِ الزَّادِ عَلَى الرِّقَابِ:
باب: توشہ اپنے کندھوں پر لاد کر خود لے جانا۔
حدیث نمبر: 2983
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" خَرَجْنَا وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ نَحْمِلُ زَادَنَا عَلَى رِقَابِنَا فَفَنِيَ زَادُنَا حَتَّى كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا يَأْكُلُ فِي كُلِّ يَوْمٍ تَمْرَةً، قَالَ رَجُلٌ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، وَأَيْنَ كَانَتِ التَّمْرَةُ تَقَعُ مِنَ الرَّجُلِ، قَالَ: لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَقَدْنَاهَا حَتَّى أَتَيْنَا الْبَحْرَ، فَإِذَا حُوتٌ قَدْ قَذَفَهُ الْبَحْرُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْمًا مَا أَحْبَبْنَا".
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں ہشام نے، انہیں وہب بن کیسان نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم (ایک غزوہ پر) نکلے۔ ہماری تعداد تین سو تھی، ہم اپنا راشن اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ آخر ہمارا توشہ جب (تقریباً) ختم ہو گیا، تو ایک شخص کو روزانہ صرف ایک کھجور کھانے کو ملنے لگی۔ ایک شاگرد نے پوچھا، اے ابوعبداللہ! (جابر رضی اللہ عنہ) ایک کھجور سے بھلا ایک آدمی کا کیا بنتا ہو گا؟ انہوں نے فرمایا کہ اس کی قدر ہمیں اس وقت معلوم ہوئی جب ایک کھجور بھی باقی نہیں رہ گئی تھی۔ اس کے بعد ہم دریا پر آئے تو ایک ایسی مچھلی ملی جسے دریا نے باہر پھینک دیا تھا۔ اور ہم اٹھارہ دن تک خوب جی بھر کر اسی کو کھاتے رہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2983  
2983. حضرت جابربن عبد اللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم تین سو آدمی جہاد کے لیے نکلے۔ ہم اپنا راشن اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ اس دوران میں ہمارا راشن ختم ہو گیا حتی کہ ایک شخص کو روزانہ ایک کھجور کھانے کو ملتی تھی۔ ایک شاگرد نے پوچھا: ابو عبد اللہ! ایک کھجور سے آدمی کیسے گزارا کر سکتا ہے؟ انھوں نے فرمایا: اس کی قدر و قیمت ہمیں اس وقت معلوم ہوئی جب کھانے کو ایک کھجور بھی نہیں ملتی تھی حتی کہ ہم سمندر کے کنارے پر آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مچھلی ہے جسے سمندرنے باہر پھینک دیا ہے۔ ہم نے اسے اٹھارہ دن تک اپنی چاہت کے مطابق کھایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2983]
حدیث حاشیہ:
غالباً وہیل مچھلی ہوگی جو بعض دفعہ اسی فٹ سے سو فٹ تک طویل ہوتی ہے اور جو آیات الٰہی میں سے ایک عجیب مخلوق ہے۔
اٹھارہ دن تک صرف اسی مچھلی پر گزارہ کرنا یہ محض اللہ کی طرف سے تائید غیبی تھی۔
یہ رجب ۸ھ کا واقعہ ہے۔
باب کا مطلب یوں ثابت ہوا کہ یہ تین سو مجاہدین اپنا اپنا راشن اپنے اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔
وہ زمانہ بھی ایسی تنگیوں کا تھا۔
نہ آج جیسا کہ ہر قسم کی سہولتیں میسر ہوگئی ہیں پھر بھی بعض مواقع پر سپاہی کو اپنا راشن خود اٹھانا پڑ جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2983   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2983  
2983. حضرت جابربن عبد اللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم تین سو آدمی جہاد کے لیے نکلے۔ ہم اپنا راشن اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ اس دوران میں ہمارا راشن ختم ہو گیا حتی کہ ایک شخص کو روزانہ ایک کھجور کھانے کو ملتی تھی۔ ایک شاگرد نے پوچھا: ابو عبد اللہ! ایک کھجور سے آدمی کیسے گزارا کر سکتا ہے؟ انھوں نے فرمایا: اس کی قدر و قیمت ہمیں اس وقت معلوم ہوئی جب کھانے کو ایک کھجور بھی نہیں ملتی تھی حتی کہ ہم سمندر کے کنارے پر آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مچھلی ہے جسے سمندرنے باہر پھینک دیا ہے۔ ہم نے اسے اٹھارہ دن تک اپنی چاہت کے مطابق کھایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2983]
حدیث حاشیہ:

سمندر کی مخلوق بہت عجیب و غریب ہوتی ہے۔
وہیل مچھلی کی لمبائی بھی اسی سے سوفٹ تک ہوتی ہے۔
غالباً وہ اسی قسم کی مچھلی ہوگی جسے تین سو مجاہد اٹھارہ دن تک اپنی چاہت کے مطابق کھاتے رہے۔

اس حدیث میں ہے کہ تین سو مجاہد اپنا اپنا راشن اپنے اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔
اس دور میں افواج کو ہر قسم کی سہولیات میسر نہیں تھیں اس لیے بعض اوقات انھیں اپنا اپنا راشن خود اٹھانا پڑتا تھا۔
امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ ایسا کرنا کوئی عیب نہیں بلکہ فوجی ٹریننگ کا ایک حصہ ہے۔
فوج کو چوکس رکھنے کے لیے انھیں ہر وقت متحرک رکھا جاتا ہے اور ان سے مشقت کے کام لیے جاتے ہیں تاکہ وہ سہل پسند نہ بن جائیں اور میدان جہاد میں سستی نہ دکھائیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2983