صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
133. بَابُ التَّكْبِيرِ إِذَا عَلاَ شَرَفًا:
باب: جب بلندی پر چڑھے تو اللہ اکبر کہنا۔
حدیث نمبر: 2995
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا قَفَلَ مِنَ الْحَجِّ أَوِ الْعُمْرَةِ وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا، قَالَ: الْغَزْوِ، يَقُولُ: كُلَّمَا أَوْفَى عَلَى ثَنِيَّةٍ أَوْ فَدْفَدٍ كَبَّرَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّهُ، وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، قَالَ: صَالِحٌ، فَقُلْتُ لَهُ: أَلَمْ يَقُلْ عَبْدُ اللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: لَا.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج یا عمرہ سے واپس ہوتے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یوں کہا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے لوٹتے، تو جب بھی آپ کسی بلندی پر چڑھتے یا (نشیب سے) کنکریلے میدان میں آتے تو تین مرتبہ «الله اكبر» کہتے۔ پھر فرماتے «لا إله إلا الله،‏‏‏‏ وحده لا شريك له،‏‏‏‏ له الملك،‏‏‏‏ وله الحمد،‏‏‏‏ وهو على كل شىء قدير،‏‏‏‏ آيبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون،‏‏‏‏ صدق الله وعده،‏‏‏‏ ونصر عبده،‏‏‏‏ وهزم الأحزاب وحده‏"‏‏.‏» اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ ملک اس کا ہے اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے۔ ہم واپس ہو رہے ہیں توبہ کرتے ہوئے، عبادت کرتے ہوئے۔ اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے اور اس کی حمد پڑھتے ہوئے، اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا (کفار کی) تمام جماعتوں کو شکست دے دی۔ صالح نے کہا کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے پوچھا کیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے لفظ «آيبون» کے بعد «إن شاء الله» نہیں کہا تھا تو انہوں نے بتایا کہ نہیں۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 452  
´چڑھائی چڑھتے وقت کی دعا`
«. . . 227- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قفل من غزو أو حج أو عمرة يكبر على شرف من الأرض ثلاث تكبيرات، ثم يقول: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير. آيبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون. صدق الله وعده، ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد، حج یا عمرے سے واپس لوٹتے تو ہر اونچی زمین پر (چڑھتے ہوئے) تین تکبیریں کہتے پھر فرماتے: «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ. لِرَبِّنَا حَامِدُونَ. صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ. وَنَصَرَ عَبْدَهُ. وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ» ایک اللہ کے سوا کوئی الہٰ (معبود برحق) نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کی حمد و ثنا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، واپس جا رہے ہیں، توبہ کرتے ہوئے، عبادت کرتے ہوئے، سجدے کرتے ہوئے، اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں، اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے اللہ نے تمام گروہوں کو شکست دے دی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 452]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1797، ومسلم 428/1344، من حديث مالك به]
تفقه
➊ اونچی جگہ پر چڑھتے ہوئے تکبیر (اللہ اکبر) کہنا اور نیچے اُترتے ہوئے سبحان اللہ کہنا سنت ہے۔
➋ ہر وقت اپنی زبان ذکر الٰہی سے تر رکھنی چاہئے۔
➌ اللہ تعالی سب پر غالب ہے لہٰذا صرف اسی سے مدد مانگنی چاہئے۔
➍ دین اسلام ایک کامل دین ہے، زندگی کے ہر قسم کے نشیب و فراز پر ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے۔
➎ مناظر قدرت کو دیکھ کر اللہ کی تکبیر و تسبیح بیان کرنی چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 227   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6385  
´سفر میں جاتے وقت یا سفر سے واپسی کے وقت دعا کرنا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَفَلَ مِنْ غَزْوٍ، أَوْ حَجٍّ، أَوْ عُمْرَةٍ، يُكَبِّرُ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ مِنَ الْأَرْضِ ثَلَاثَ تَكْبِيرَاتٍ، ثُمَّ يَقُولُ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوہ یا حج یا عمرہ سے واپس ہوتے تو زمین سے ہر بلند چیز پر چڑھتے وقت تین تکبیریں کہا کرتے تھے۔ پھر دعا کرتے «لا إله إلا الله،‏‏‏‏ وحده لا شريك له،‏‏‏‏ له الملك وله الحمد،‏‏‏‏ وهو على كل شيء قدير. آيبون تائبون عابدون،‏‏‏‏ لربنا حامدون. صدق الله وعده. ونصر عبده،‏‏‏‏ وهزم الأحزاب وحده» اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ لوٹتے ہیں ہم توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرتے ہوئے اور حمد بیان کرتے ہوئے۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندہ کی مدد کی اور تنہا تمام لشکر کو شکست دی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الدَّعَوَاتِ: 6385]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6385 کا باب: «بَابُ الدُّعَاءِ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَوْ رَجَعَ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب امام بخاری رحمہ اللہ نے سفر میں جاتے ہوئے اور واپس آتے ہوئے کی دعا پر قائم فرمایا، جبکہ تحت الباب حدیث میں صرف واپسی کا ذکر ہے اور دعا بھی صرف واپسی کے وقت ہی کی نقل فرمائی ہے، لہذا باب حدیث سے مکمل طور پر مناسبت نہیں رکھتا، چنانچہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں روانگی سفر کی دعا مذکور نہیں ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا اس روایت کی طرق کی طرف جس میں روانگی کے وقت کی دعا مذکور ہے۔
«كان إذا استوى على بعيره خارجًا إلى سفر، كبر ثلاثًا ثم قال: . . . . ..» (1)
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں نکلتے وقت کو بھی دعا مذکور ہے کہ تین مرتبہ اللہ اکبر کہو . . . . .۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ولم يذكر المؤلف الدعا إذا أراد سفرًا و لعله يشير إلى نحو ما وقع عند مسلم فى رواية على بن عبدالله الأزدي عن ابن عمر أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا استوى على بعيره خارجًا إلى سفر كبر ثلاثًا ثم قال: سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هَذَا . . . . . الحديث.» (2)
امام قسطلانی رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں سفر کے لیے نکلتے وقت کی دعا مذکور ہے جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں بطریق علی بن عبداللہ الازدی عن ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نکالا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی سواری پر سوار ہوتے سفر کے نکلنے کے لیے تو فرماتے: «سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هَذَا . . . . .»
لہذا باب اور حدیث میں مناسبت اس جہت سے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے اس روایت کی طرف جس میں نکلتے وقت بھی سفر کی دعا کا ذکر ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 211   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2770  
´سفر میں ہر بلندی پر چڑھتے وقت تکبیر کہنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جہاد یا حج و عمرہ سے لوٹتے تو ہر بلندی پر چڑھتے وقت تین بار «الله اكبر» کہتے، اور اس کے بعد یہ دعا پڑھتے: «لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، آيبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون، صدق الله وعده، ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده» اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تن تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اور اسی کے لیے حمد ہے، او وہ ہر چیز پر قادر ہے، ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، عب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2770]
فوائد ومسائل:
مسنون یہی ہے کہ بلندی پرچڑھتے ہوئے تکبیر (اللہ أکبر) اور پستی کیطرف اترتے ہوئے تسبیح (سبحان اللہ) کہا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2770   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2995  
2995. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ جب حج و عمرہ کے سفر سے واپس ہوتے، اور میں خوب جانتا ہوں کہ آپ نے سفر جہاد کا بھی ذکر فرمایا: جب بھی کسی بلندی پر چڑھتے یا (نشیب سے) کنکریوں والے کھلے میدان میں پہنچتے تو تین مرتبہ اللہ أکبر کہتے۔ پھر یوں دعا کرتے: اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ وہی چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ ہم واپس ہو رہے ہیں، توبہ کرتے ہوئے، اس کی عبادت بجا لاتے ہوئے، اپنے پروردگار کی بارگاہ میں سجدہ کرتے ہوئے، اس کی حمد پڑھتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اس اکیلے نے لشکروں کو شکست سے دوچار کیا۔ (راوی حدیث) صالح نے کہا: میں نے ان (اپنے شیخ حضرت سالم بن عبداللہ)سے پوچھا: کیا حضرت عبد اللہ ؓنے إن شاء اللہ کے الفاظ نہیں کہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2995]
حدیث حاشیہ:
رسول کریمﷺ نے حمد مذکورہ میں صدق اللہ وعدہ الخ کے الفاظ غزوہ خندق کے موقع پر ارشاد فرمائے تھے‘ اور حجۃ الوداع سے واپسی پر بھی جب کہ اسلام کو فتح کامل ہوچکی تھی اب بھی ان پاک ایام کی یاد تازہ کرنے کے لئے ان جملہ کلمات طیبات کو ایسے مبارک مواقع پر پڑھا جاسکتا ہے۔
لفظ مبارک إن شاء اللہ کا تعلق مستقبل کے ساتھ ہے نہ کہ ماضی کے اسی لئے اس موقع پر جو ماضی سے متعلق تھا‘ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے لفظ إن شاء اللہ نہیں کہا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2995   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2995  
2995. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ جب حج و عمرہ کے سفر سے واپس ہوتے، اور میں خوب جانتا ہوں کہ آپ نے سفر جہاد کا بھی ذکر فرمایا: جب بھی کسی بلندی پر چڑھتے یا (نشیب سے) کنکریوں والے کھلے میدان میں پہنچتے تو تین مرتبہ اللہ أکبر کہتے۔ پھر یوں دعا کرتے: اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ وہی چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ ہم واپس ہو رہے ہیں، توبہ کرتے ہوئے، اس کی عبادت بجا لاتے ہوئے، اپنے پروردگار کی بارگاہ میں سجدہ کرتے ہوئے، اس کی حمد پڑھتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اس اکیلے نے لشکروں کو شکست سے دوچار کیا۔ (راوی حدیث) صالح نے کہا: میں نے ان (اپنے شیخ حضرت سالم بن عبداللہ)سے پوچھا: کیا حضرت عبد اللہ ؓنے إن شاء اللہ کے الفاظ نہیں کہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2995]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ الفاظ غزوہ خندق کے موقع پر ارشاد فرمائے تھے۔
حجۃ الوداع سے واپسی پر آپ نے ان کلمات کو دہرایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرمایا:
اور جذبہ شکر کے طور پر آپ نے یہ الفاظ کہے۔
ہم بھی ایسے مبارک مواقع پر انھیں پڑھ سکتے ہیں۔

امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جب انسان کسی بلندی پر چڑھے تو اللہ أکبر کہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا اظہار ہو۔
بلندی پر چڑھتے ہوئے یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ ہم بلند ہو رہے ہیں بلندی كے لائق صرف ذات کبریا ہے۔
ہم تو اس کے عاجز بندے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2995