صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
140. بَابُ مَنِ اكْتُتِبَ فِي جَيْشٍ فَخَرَجَتِ امْرَأَتُهُ حَاجَّةً، وَكَانَ لَهُ عُذْرٌ، هَلْ يُؤْذَنُ لَهُ:
باب: ایک شخص اپنا نام مجاہدین میں لکھوا دے پھر اس کی عورت حج کو جانے لگے یا اور کوئی عذر پیش آئے تو اس کو اجازت دی جا سکتی ہے (کہ جہاد میں نہ جائے)۔
حدیث نمبر: 3006
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ، وَلَا تُسَافِرَنَّ امْرَأَةٌ إِلَّا وَمَعَهَا مَحْرَمٌ، فَقَامَ: رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اكْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا، وَخَرَجَتِ امْرَأَتِي حَاجَّةً، قَالَ: اذْهَبْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِكَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن دینار نے ‘ ان سے ابومعبد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مرد کسی (غیر محرم) عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے اور کوئی عورت اس وقت تک سفر نہ کرے جب تک اس کے ساتھ کوئی اس کا محرم نہ ہو۔ اتنے میں ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! میں نے فلاں جہاد میں اپنا نام لکھوا دیا ہے اور ادھر میری بیوی حج کے لیے جا رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو بھی جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 587  
´حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ میں یہ ارشاد فرماتے سنا کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ہرگز اکیلا نہ ہو مگر اس کے ساتھ محرم ہو اور کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ پس ایک آدمی کھڑا ہوا تو اس نے کہا اے اللہ کے رسول! بیشک میری عورت حج کے لئے روانہ ہوئی اور میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں شامل ہونے کیلئے لکھا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اپنی بیوی کے ہمراہ حج کرو۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ [بلوغ المرام/حدیث: 587]
587 لغوی تشریح:
«لَايَخُلُونَّ» یہ نون تاکید کے ساتھ «خلوة» سے نہی کا صیغہ ہے۔
«ذُو مَحْرَمٟ» میم اور را پر زبر اور ان کے مابین حا ساکن ہے۔ اس سے عورت کے وہ قریبی مراد ہیں جن سے اس کا نکاح حرام ہے جیسے باپ، بیٹا بھائی وغیرہ۔
«اُكْتُتِبْتُ» باب افتعال سے متکلم مجہول کا صیغہ ہے، یعنی میرا نام مجاہدین کی فہرست میں شامل ہے اور مجھے فلاں غزوے کے لیے متعین کیا گیا ہے۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورت اپنے خاوند یا محرم کے بغیر حج نہیں کر سکتی اور عورت کے لیے یہ بھی فی الجملہ «مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا» کے حکم میں شامل ہے۔ یہ عورت کے لیے زائد شرط ہے، اگر یہ پوری ہو گی تو اس پر حج واجب ہے ورنہ اس پر حج کا فریضہ عائد ہی نہ ہو گا۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غیر محرم مرد اور عورت کے لیے تنہائی میں علیحدہ ہونا حرام ہے، بلکہ ایک حدیث میں ہے، جب بھی دونوں علیحدہ ہوں گے تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہو گا۔ اس طرح عورت کے لیے محرم کے بغیر تنہا سفر کرنا بھی حرام ہے۔ بعض فقہاء نے بعض ادلہ کی بنا پر بوڑھی، قافلہ کی صورت میں یا ذی حشمت عورت کو اس کی اجازت دی ہے مگر حدیث کے صریح الفاظ اس بات کی نفی کرتے ہیں۔
➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت پر حج فرض ہو تو نماز کی طرح اس کی اجازت خاوند سے ضروری نہیں، البتہ نفلی حج ہو تو عورت کو بہر نوع اجازت لے کر جانا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 587   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3006  
3006. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا: کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے اور نہ کوئی عورت محرم کے بغیر سفر کرے۔ یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے اپنا نام فلاں فلاں جہاد کے لیے لکھوادیا ہے لیکن میری اہلیہ حج کے لیے جا رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: جاؤ تم اپنی بیوی کے ہمراہ حج کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3006]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ اس کی عورت کے ساتھ دوسرا مرد نہیں جاسکتا اور جہاد میں اس کے بدل دوسرا شخص شریک ہوسکتا ہے تو آپ نے ضروری کام کو غیر ضروری پر مقدم رکھا۔
عورت اپنی شخصیت میں ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے۔
اس لئے وہ اپنے مال سے خود حج پر جاسکتی ہے۔
مگر خاوند کا ساتھ ہونا یا اس کی طرف سے کسی ذی محرم کا ساتھ بھیج دینا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3006   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3006  
3006. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا: کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے اور نہ کوئی عورت محرم کے بغیر سفر کرے۔ یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے اپنا نام فلاں فلاں جہاد کے لیے لکھوادیا ہے لیکن میری اہلیہ حج کے لیے جا رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: جاؤ تم اپنی بیوی کے ہمراہ حج کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3006]
حدیث حاشیہ:

محرم وہ شخص ہے جس کے ساتھ ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو۔
محرم بغیر کسی عورت کو سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص کا نام جہاد میں لکھا جائے اور اس کی بیوی نے حج کرنا ہو تو اسے اپنی بیوی کے ہمراہ جانا چاہیے۔
اس کے لیے جہاد میں جانا ضروری نہیں کیونکہ جہاد میں تو اس کا کوئی دوسرا قائم مقام ہو سکتا ہے لیکن بیوی کے ساتھ جانے کے لیے کوئی اجنبی قائم مقام نہیں ہو سکتا۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہم معاملات کو عارضی امور پر مقدم کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے ایک ضروری کام کو اہمیت دی ہے چنانچہ سفر حج اور سفر جہاد میں تعارض کی صورت میں آپ نے سفرحج کو ترجیح دی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3006