سنن ترمذي
كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
132. باب فِي حُسْنِ الظَّنِّ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
باب: اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ظن رکھنے کا بیان
وَرُوِيَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ , أَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ سورة البقرة آية 152 قَالَ: اذْكُرُونِي بِطَاعَتِي أَذْكُرْكُمْ بِمَغْفِرَتِي. حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، وَعَمْرُو بْنُ هَاشِمٍ الرَّمْلِيُّ , عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ بِهَذَا.
‏‏‏‏ سعید بن جبیر اس آیت: «فاذكروني أذكركم» کے بارے میں فرماتے ہیں: «اذكروني» سے مراد یہ ہے کہ میری اطاعت کے ساتھ مجھے یاد کرو میں تمہاری مغفرت میں تجھے یاد کروں گا۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی: اگر مومن بندہ اپنے تئیں اللہ سے یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے گا، میرے اوپر رحمت کرے، مجھے دین و دنیا میں بھلائی سے بہرہ ور کے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اس حسن ظن کے مطابق معاملہ کرتا ہے، بعض شارحین کہتے ہیں: یہاں ظن گمان نہیں یقین کے معنی میں ہے، یعنی: بندہ جیسا اللہ سے یقین رکھتا ہے اللہ ویسا ہی اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3822)