صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
141. بَابُ الْجَاسُوسِ:
باب: جاسوسی کا بیان۔
التَّجَسُّسُ: التَّبَحُّثُ.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الممتحنہ میں) فرمایا «لا تتخذوا عدوي وعدوكم أولياء‏» مسلمانو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ لفظ جاسوس تجسس سے نکلا ہے یعنی کسی بات کو کھود کر نکالنا۔
حدیث نمبر: 3007
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا والزُّبَيْرَ والْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ، قَالَ:" انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً وَمَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى الرَّوْضَةِ، فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى أُنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا حَاطِبُ مَا هَذَا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ بِمَكَّةَ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي وَمَا فَعَلْتُ كُفْرًا، وَلَا ارْتِدَادًا، وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ صَدَقَكُمْ، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، قَالَ: إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَكُونَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ"، قَالَ سُفْيَانُ: وَأَيُّ إِسْنَادٍ هَذَا.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ سفیان نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے دو مرتبہ سنی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے حسن بن محمد نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد بن اسود (رضی اللہ عنہم) کو ایک مہم پر بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم لوگ روضہ خاخ (جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے) پر پہنچ جاؤ تو وہاں ایک بڑھیا عورت تمہیں اونٹ پر سوار ملے گی اور اس کے پاس ایک خط ہو گا ‘ تم لوگ اس سے وہ خط لے لینا۔ ہم روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لیے جا رہے تھے۔ آخر ہم روضہ خاخ پر پہنچ گئے اور وہاں واقعی ایک بوڑھی عورت موجود تھی جو اونٹ پر سوار تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔ لیکن جب ہم نے اسے دھمکی دی کہ اگر تو نے خط نہ نکالا تو تمہارے کپڑے ہم خود اتار دیں گے۔ اس پر اس نے اپنی گندھی ہوئی چوٹی کے اندر سے خط نکال کر دیا ‘ اور ہم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے ‘ اس کا مضمون یہ تھا ‘ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے چند آدمیوں کی طرف ‘ اس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض بھیدوں کی خبر دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حاطب! یہ کیا واقعہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے بارے میں عجلت سے کام نہ لیجئے۔ میری حیثیت (مکہ میں) یہ تھی کہ قریش کے ساتھ میں نے رہنا سہنا اختیار کر لیا تھا ‘ ان سے رشتہ ناتہ میرا کچھ بھی نہ تھا۔ آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی تو مکہ میں سب کی رشتہ داری ہے اور مکہ والے اسی وجہ سے ان کے عزیزوں کی اور ان کے مالوں کی حفاظت و حمایت کریں گے مگر مکہ والوں کے ساتھ میرا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے ‘ اس لیے میں نے سوچا کہ ان پر کوئی احسان کر دوں جس سے اثر لے کر وہ میرے بھی عزیزوں کی مکہ میں حفاظت کریں۔ میں نے یہ کام کفر یا ارتداد کی وجہ سے ہرگز نہیں کیا ہے اور نہ اسلام کے بعد کفر سے خوش ہو کر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اجازت دیجئیے میں اس منافق کا سر اڑا دوں ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ‘ یہ بدر کی لڑائی میں (مسلمانوں کے ساتھ مل کر) لڑے ہیں اور تمہیں معلوم نہیں ‘ اللہ تعالیٰ مجاہدین بدر کے احوال (موت تک کے) پہلے ہی سے جانتا تھا ‘ اور وہ خود ہی فرما چکا ہے کہ تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ حدیث کی یہ سند بھی کتنی عمدہ ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3305  
´سورۃ الممتحنہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبیداللہ بن ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زبیر اور مقداد بن اسود کو بھیجا، فرمایا: جاؤ، روضہ خاخ ۱؎ پر پہنچو وہاں ایک ھودج سوار عورت ہے، اس کے پاس ایک خط ہے، وہ خط جا کر اس سے لے لو، اور میرے پاس لے آؤ، چنانچہ ہم نکل پڑے، ہمارے گھوڑے ہمیں لیے لیے دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش کر رہے تھے، ہم روضہ پہنچے، ہمیں ہودج سوار عورت مل گئی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال، اس نے کہا: ہمارے پاس کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا: خط نکالتی ہے یا پھر اپنے کپڑے اتارتی ہے؟ (ی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3305]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
خاخ ایک جگہ کا نام ہے اس کے اور مدینہ کے درمیان 12میل کا فاصلہ ہے۔

2؎:
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو،
میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ،
تم انہیں دوستی کا پیغام بھیجتے ہو (الممتحنة: 1)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3305   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2650  
´جاسوس اگر مسلمان ہو اور کافروں کے لیے جاسوسی کرے تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبیداللہ بن ابی رافع جو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے منشی تھے، کہتے ہیں: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد تینوں کو بھیجا اور کہا: تم لوگ جاؤ یہاں تک کہ روضہ خاخ ۱؎ پہنچو، وہاں ایک عورت کجاوہ میں بیٹھی ہوئی اونٹ پر سوار ملے گی اس کے پاس ایک خط ہے تم اس سے اسے چھین لینا، تو ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے یہاں تک کہ روضہ خاخ پہنچے اور دفعتاً اس عورت کو جا لیا، ہم نے اس سے کہا: خط لاؤ، اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے، میں نے کہا: خط نکالو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2650]
فوائد ومسائل:

رسول اللہ ﷺ کا غیب کی خبریں دینا وحی کی بنا پر ہوتا تھا۔


مجاہد کو تلوار کا دھنی ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر تدابیر سے بھی کام لینا چاہیے۔
جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دھمکی سے کام نکالا۔


صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی امانت قابل قدر ہے کہ انہوں نے اپنے طور پر خط پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔


کافر کا کوئی اکرام و احترام نہیں ہوتا، بالخصوص جب وہ مسلمانوں کے خلاف کام کرتا ہو۔


بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین تمام تر رفعت شان کے باوجود بشری خطائوں سے مبرا نہ تھے اور ان سے ان کے عادل ہونے پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔
جیسے کہ حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

جب کوئی شخص کسی ناجائز کام کا مرتکب ہوا ہو وہ اس کے جواز میں اپنے فہم (تاویل) کا سہارا لے تو اس کا عذر ایک حد تک قبول کیا جائے گا۔
بشرط یہ کہ اس کے فہم (تاویل) کی گنجائش نکلتی ہو۔


کوئی مسلمان ہوتے ہوئے اپنے مسلمانوں کے راز افشاں کرے۔
اور ان کی جاسوسی کرے۔
تو یہ حرام کام ہے۔
اور انتہائی کبیرہ گناہ مگر اس کو قتل نہیں کیا جائے گا۔
لیکن تعزیر ضرور ہوگی۔
امام شافعی فرماتے ہیں۔
کہ اگر کوئی مسلمان باوقار ہو اور مسلمانوں کو ضرر پہنچانے کی تہمت سے مہتم نہ ہو تو اس کو معاف بھی کیا جاسکتا ہے۔


کسی واضح عمل کی بنا پر اگر کوئی شخص کسی کو کفر یانفاق کی طرف منسوب کردے تو اس پرکوئی سزا نہیں۔
جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا۔


اہل بدر کو دیگر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے مقابلے میں ایک ممتاز مرتبہ حاصل تھا۔
حضرت حاطبرضی اللہ تعالیٰ عنہ انہی میں سے تھے۔
اور نفاق کی تہمت سے بری تھے۔

10۔
جو جی چاہے کرو۔
کہ یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ شرعی پابندیوں سے آذاد قرار دیئے گئے۔
بلکہ یہ ان کی مدح ثناء تھی۔
اور اللہ تعالیٰ کی طرفسے ضمانت تھی۔
کہ یہ لوگ اللہ کی خاص حفاظت میں ہیں۔
ان میں سے کوئی ایسا کام مصادر نہ ہوگا۔
جوشریعت کے صریح منافی ہو۔
واللہ اعلم۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2650   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3007  
3007. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، حضرت زبیر ؓاور حضرت مقداد بن اسود ؓ کو ایک مہم پرروانہ کیا اور فرمایا: تم چلتے رہو حتی کہ روضہ خاخ پہنچ جاؤ۔ وہاں تمھیں اونٹ پر سوار ایک عورت ملے گی۔ اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے آؤ۔ ہم وہاں سے روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں لیے تیز ی سے دوڑے جا رہے تھے یہاں تک کہ ہم روضہ خاک پہنچ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں اونٹ سوار ایک عورت ہے۔ ہم نے اسے کہا: خط نکال۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا: خط نکال دو ورنہ ہم تیرے کپڑے اتاردیں گے، چنانچہ اس نے اپنے سر کے جوڑے سےخط نکالا۔ ہم وہ خط لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے خط کھول کر پڑھا تو اس میں یہ مضمون تھا: یہ خط حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کی طرف سے چند مشرکین کے نام ہے، وہ انھیں رسول اللہ ﷺ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3007]
حدیث حاشیہ:
مضمون خط کا یہ تھا أما بعد! قریش کے لوگو! تم کو معلوم رہے کہ آنحضرتﷺ ایک جرار لشکر لئے ہوئے تمہارے سر پر آتے ہیں۔
اگر آپ اکیلے آئیں تو بھی اللہ آپ کی مدد کرے گا اور اپنا وعدہ پورا کرے گا‘ اب تم اپنا بچاؤ کرلو‘ والسلام۔
حضرت عمر ؓ نے قانون شرعی اور قانون سیاست کے مطابق رائے دی کہ جو کوئی اپنی قوم یا سلطنت کی خبر دشمنوں کو پہنچائے وہ سزائے موت کے قابل ہے لیکن آنحضرتﷺ نے حضرت حاطبؓ کی نیت میں کوئی فتور نہیں دیکھا اور یہ بھی کہ وہ بدری صحابہ میں سے تھے جن کی جزوی لغزشوں کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی معاف کردیا ہے۔
اس لئے ان کی اس سیاسی غلطی کو آنحضرتﷺ نے نظر انداز فرما دیا اور حضرت عمرؓ کی رائے کو پسند نہیں فرمایا۔
معلوم ہوا کہ ذمہ دار لوگوں کے بعض انفرادی یا اجتماعی معاملات ایسے بھی آجاتے ہیں کہ ان میں سخت ترین غلطیوں کو بھی نظر انداز کردینا ضروری ہو جاتا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ فتویٰ دینے سے قبل معاملے کے ہر ہر پہلو پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
جو لوگ بغیر غور و فکر کئے سرسری طور پر فتویٰ دے دیتے ہیں بعض دفعہ ان کے ایسے فتوے بہت سے فسادات کے اسباب بن جاتے ہیں۔
خاخ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک گاؤں کا نام تھا۔
اس حدیث سے اہل بدر کی بھی فضیلت ثابت ہوئی کہ اللہ پاک نے ان کی جملہ لغزشوں کو معاف فرما دیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3007   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3007  
3007. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، حضرت زبیر ؓاور حضرت مقداد بن اسود ؓ کو ایک مہم پرروانہ کیا اور فرمایا: تم چلتے رہو حتی کہ روضہ خاخ پہنچ جاؤ۔ وہاں تمھیں اونٹ پر سوار ایک عورت ملے گی۔ اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے آؤ۔ ہم وہاں سے روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں لیے تیز ی سے دوڑے جا رہے تھے یہاں تک کہ ہم روضہ خاک پہنچ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں اونٹ سوار ایک عورت ہے۔ ہم نے اسے کہا: خط نکال۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا: خط نکال دو ورنہ ہم تیرے کپڑے اتاردیں گے، چنانچہ اس نے اپنے سر کے جوڑے سےخط نکالا۔ ہم وہ خط لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے خط کھول کر پڑھا تو اس میں یہ مضمون تھا: یہ خط حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کی طرف سے چند مشرکین کے نام ہے، وہ انھیں رسول اللہ ﷺ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3007]
حدیث حاشیہ:

علامہ عینی ؒنےسُہیلی ؒ کے حوالے سے حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کے خط کا مضمون ان الفاظ میں لکھا ہے۔
أمابعد! قریش کے لوگو! تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ ایک لشکر جرار لے کر مکہ کی طرف آرہے ہیں۔
اگر آپ اکیلے بھی آجائیں تو بھی اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا اور اپنا وعدہ پورا کرے گا۔
اب تم اپنا بچاؤ کر لو۔
(عمدة القاري: 321/10)
حضرت عمر ؓ نے حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کے متعلق جو رائے دی وہ شرعی اور سیاسی قانون کے عین مطابق تھی کہ انسان اپنی قوم یا حکومت کی خبر دشمن تک پہنچائے وہ قابل گردن زونی ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے بعض مصالح کے پیش نظر اس رائے سے اتفاق نہ کیا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذمہ دار حضرات کے بعض انفرادی یا اجتماعی معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان میں سنگین غلطیوں کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔
امام بخاری ؒ نے عنوان کے تحت ایک آیت کا حوالہ دیا ہے۔
حدیث میں اس آیت کا پس منظر بیان ہوا ہے اس سے کفار کے جاسوس کا حکم معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی مسلمان کو اس کی جاسوسی کا علم ہو جائے تو اس کا معاملہ حاکم وقت تک پہنچانا چاہیے تاکہ وہ اس کے متعلق مناسب رائے قائم کر کے کوئی فیصلہ دے۔

ہمارے نزدیک جاسوسی کا حکم یہ ہے کہ جب وہ کفار کی طرف سے ہو تو محض شرہے اور اگر مسلمانوں کی طرف سے ہو تو وہ جنگی مصلحت کی وجہ سے خیر پر مبنی ہوتی ہے امام بخاری ؒ نے کفار کی طرف سے جاسوسی کا حکم اور مسلمانوں کی طرف سے اس کی مشروعیت بتانے کے لیے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث ذکر کی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3007