صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
142. بَابُ الْكِسْوَةِ لِلأُسَارَى:
باب: قیدیوں کو کپڑے پہنانا۔
حدیث نمبر: 3008
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا كَانَ يَوْمَ بَدْرٍ أُتِيَ بِأُسَارَى، وَأُتِيَ بِالْعَبَّاسِ وَلَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ ثَوْبٌ، فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ قَمِيصًا فَوَجَدُوا قَمِيصَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ يَقْدُرُ عَلَيْهِ فَكَسَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهُ، فَلِذَلِكَ نَزَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَهُ الَّذِي أَلْبَسَهُ، قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: كَانَتْ لَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ يُكَافِئَهُ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن دینار نے ‘ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی سے قیدی (مشرکین مکہ) لائے گئے۔ جن میں عباس (رضی اللہ عنہ) بھی تھے۔ ان کے بدن پر کوئی کپڑا نہیں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے قمیص تلاش کروائی۔ (وہ لمبے قد کے تھے) اس لیے عبداللہ بن ابی (منافق) کی قمیص ہی ان کے بدن پر آ سکی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہ قمیص پہنا دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عبداللہ بن ابی کی موت کے بعد) اپنی قمیص اتار کر اسے پہنائی تھی۔ ابن عیینہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اس کا احسان تھا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ اسے ادا کر دیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3008  
3008. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ غزوہ بدر کے روز قیدیوں کو لایا گیا۔ ان میں حضرت عباس ؓ بھی تھے۔ ان کے بدن پر کوئی کپڑا نہیں تھا تو نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے قمیص تلاش کی۔ عبداللہ بن ابی کی قمیص ہی ان کے بدن پر پوری آسکی۔ اس بنا پر نبی کریم ﷺ نے وہ انھیں پہنادی، اسی لیے نبی کریم ﷺ نے اپنا کرتا اتار کر عبداللہ بن ابی کو (مرنے کے بعد) پہنایا تھا۔ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر اس کا جو احسان تھا آپ نے چاہا کہ اس کا احسان اتار دیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3008]
حدیث حاشیہ:
آنحضرتﷺ نے حضرت عباس ؓ کو قمیص پہنائی جو کہ حالت کفر میں آپﷺ کی قید میں تھے۔
اسی سے باب کا مقصد ثابت ہوا کہ قیدی کو ننگا رکھنے کی بجائے اسے مناسب کپڑے پہنانے ضروری ہیں۔
قیدیوں کے ساتھ ہر اخلاقی اور انسانی برتاؤ کرتا ضروری ہے۔
باب کا یہی ارشاد ہے۔
عبداللہ بن ابی منافق کے حالات تفصیل سے بیان ہوچکے ہیں‘ یہ بھی ثابت ہوا کہ احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرنا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3008   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3008  
3008. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ غزوہ بدر کے روز قیدیوں کو لایا گیا۔ ان میں حضرت عباس ؓ بھی تھے۔ ان کے بدن پر کوئی کپڑا نہیں تھا تو نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے قمیص تلاش کی۔ عبداللہ بن ابی کی قمیص ہی ان کے بدن پر پوری آسکی۔ اس بنا پر نبی کریم ﷺ نے وہ انھیں پہنادی، اسی لیے نبی کریم ﷺ نے اپنا کرتا اتار کر عبداللہ بن ابی کو (مرنے کے بعد) پہنایا تھا۔ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر اس کا جو احسان تھا آپ نے چاہا کہ اس کا احسان اتار دیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3008]
حدیث حاشیہ:

حضرت عباس ؓ جب جنگ بدر میں قیدی بن کر مدینہ طیبہ آئے تو وہ ننگے تھے۔
رسول اللہ ﷺنے عبداللہ بن ابی سے قمیص لے کر انھیں پہنائی تھی کیونکہ حضرت عباس ؓ کا قد لمبا تھا انھیں صرف عبد اللہ بن ابی کا کرتہ ہی پورا آسکتا تھا کیونکہ اس کاقد بھی لمباتھا۔

رسول اللہ ﷺنے اس احسان کا بدلہ اس وقت دیا جب رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی مرا اور رسول اللہ ﷺ نے اپنا کرتہ اسے پہنایا۔

اس سے معلوم ہوا کہ قیدیوں کو ننگا رکھنے کے بجائے انھیں مناسب کپڑے پہنانا ضروری ہیں۔
اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ جنگی قیدیوں کے ساتھ اخلاقی اور انسانی سلوک کرنا چاہیے۔
امام بخاری ؒنے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ حدیث سے یہی مسئلہ ثابت کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3008