سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: فضائل و مناقب
6. باب
باب
حدیث نمبر: 3630
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: عَرَضْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ: " لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ، فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ، ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ فِي يَدِي، وَرَدَّتْنِي بِبَعْضِهِ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ إِلَيْهِ , فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ، قَالَ: فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟ " , فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " بِطَعَامٍ؟ " , فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ: " قُومُوا "، قَالَ: فَانْطَلَقُوا، فَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ , وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ، قَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ؟ " , فَأَتَتْهُ بِذَلِكَ الْخُبْزِ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفُتَّ وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ بِعُكَّةٍ لَهَا فَآدَمَتْهُ، ثُمَّ قَالَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ قَالَ: " ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ " , فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: " ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ " , فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی الله عنہ نے ام سلیم رضی الله عنہما سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی، وہ کمزور تھی، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ بھوکے ہیں، کیا تمہارے پاس کوئی چیز کھانے کی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، تو انہوں نے جو کی کچھ روٹیاں نکالیں پھر اپنی اوڑھنی نکالی اور اس کے کچھ حصہ میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے ہاتھ یعنی بغل کے نیچے چھپا دیں اور اوڑھنی کا کچھ حصہ مجھے اڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، جب میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ملے اور آپ کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے، تو میں جا کر ان کے پاس کھڑا ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تمہیں ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ نے پوچھا: کھانا لے کر؟ میں نے کہا: جی ہاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام لوگوں سے جو آپ کے ساتھ تھے فرمایا: اٹھو چلو، چنانچہ وہ سب چل پڑے اور میں ان کے آگے آگے چلا، یہاں تک کہ میں ابوطلحہ رضی الله عنہ کے پاس آیا اور انہیں اس کی خبر دی، ابوطلحہ رضی الله عنہ نے کہا: ام سلیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں، اور لوگ بھی آپ کے ساتھ ہیں اور ہمارے پاس کچھ نہیں جو ہم انہیں کھلائیں، ام سلیم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو خوب معلوم ہے، تو ابوطلحہ رضی الله عنہ چلے اور آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور ابوطلحہ رضی الله عنہ آپ کے ساتھ تھے، یہاں تک کہ دونوں اندر آ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام سلیم! جو تمہارے پاس ہے اسے لے آؤ، چنانچہ وہ وہی روٹیاں لے کر آئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں توڑنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ توڑی گئیں اور ام سلیم نے اپنے گھی کی کُپّی کو اس پر اوندھا کر دیا اور اسے اس میں چیپڑ دیا، پھر اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا جو اللہ نے پڑھوانا چاہا، پھر آپ نے فرمایا: دس آدمیوں کو اندر آنے دو، تو انہوں نے انہیں آنے دیا اور وہ کھا کر آسودہ ہو گئے، پھر وہ نکل گئے، پھر آپ نے فرمایا: دس کو اندر آنے دو، تو انہوں نے انہیں آنے دیا وہ بھی کھا کر خوب آسودہ ہو گئے اور نکل گئے، اس طرح سارے لوگوں نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا اور وہ سب کے سب ستر یا اسی آدمی تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 43 (422)، والمناقب 25 (3578)، والأطعمة 6 (5381)، والأیمان والنذور 22 (6688)، صحیح مسلم/الأشربة والأطعمة 20 (2040) (تحفة الأشراف: 200)، وط/صفة النبی ﷺ 10 (19) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: آپ کی دعا کی برکت سے کھانا معجزانہ طور پر اتنا زیادہ ہوا کہ ستر اسی لوگوں نے اس سے شکم سیر ہو کر کھایا، یہ معجزا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی ایک اہل دلیل ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بھوک لگتی تھی، کیونکہ آپ بھی فطرتاً انسان تھے، بعض علماء کا یہ کہنا بالکل یہ درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کھلاتا پلاتا تھا اس لیے آپ کو بھوک نہیں لگتی تھی، کبھی ایسا بھی ہوتا تھا، اور کبھی بھوک بھی لگتی تھی، ورنہ پیٹ پر پتھر کیوں باندھتے، آواز کیوں نحیف ہو جاتی؟

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3630  
´باب`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی الله عنہ نے ام سلیم رضی الله عنہما سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی، وہ کمزور تھی، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ بھوکے ہیں، کیا تمہارے پاس کوئی چیز کھانے کی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، تو انہوں نے جو کی کچھ روٹیاں نکالیں پھر اپنی اوڑھنی نکالی اور اس کے کچھ حصہ میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے ہاتھ یعنی بغل کے نیچے چھپا دیں اور اوڑھنی کا کچھ حصہ مجھے اڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، جب میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ملے اور آپ کے ساتھ کچھ ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3630]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپﷺ کی دعا کی برکت سے کھانا معجزانہ طورپر اتنا زیادہ ہوا کہ ستر اسی لوگوں نے اس سے شکم سیر ہو کر کھا یا،
یہ معجزا تھا جو آپﷺکے نبی ہونے کی ایک اہل دلیل ہے،
نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپﷺ کو بھی بھوک لگتی تھی،
کیونکہ آپﷺ بھی فطرتاً انسان تھے،
بعض علماء کا یہ کہنا بالکلیہ درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کھلاتا پلاتا تھااس لیے آپﷺ کو بھوک نہیں لگتی تھی،
کبھی ایسا بھی ہوتا تھا،
اور کبھی بھوک بھی لگتی تھی،
ورنہ پیٹ پر پتھر کیوں باندھتے،
آواز کیوں نحیف ہو جاتی؟۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3630