صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
154. بَابُ حَرْقِ الدُّورِ وَالنَّخِيلِ:
باب: (حربی کافروں کے) گھروں اور باغوں کو جلانا۔
حدیث نمبر: 3020
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: قَالَ لِي جَرِيرٌ، قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ وَكَانَ بَيْتًا فِي خَثْعَمَ يُسَمَّى كَعْبَةَ الْيَمَانِيَةِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فِي خَمْسِينَ وَمِائَةِ فَارِسٍ مِنْ أَحْمَسَ وَكَانُوا أَصْحَابَ خَيْلٍ، قَالَ: وَكُنْتُ لَا أَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ فَضَرَبَ فِي صَدْرِي حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ أَصَابِعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا فَانْطَلَقَ إِلَيْهَا فَكَسَرَهَا وَحَرَّقَهَا، ثُمَّ بَعَثَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْبِرُهُ، فَقَالَ رَسُولُ جَرِيرٍ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا جِئْتُكَ حَتَّى تَرَكْتُهَا كَأَنَّهَا جَمَلٌ أَجْوَفُ أَوْ أَجْرَبُ، قَالَ: فَبَارَكَ فِي خَيْلِ أَحْمَسَ وَرِجَالِهَا خَمْسَ مَرَّاتٍ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذوالخلصہ کو (برباد کر کے) مجھے راحت کیوں نہیں دے دیتے۔ یہ ذوالخلصہ قبیلہ خثعم کا ایک بت خانہ تھا اور اسے «كعبة اليمانية» کہتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر چلا۔ یہ سب حضرات بڑے اچھے گھوڑ سوار تھے۔ لیکن میں گھوڑے کی سواری اچھی طرح نہیں کر پاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر (اپنے ہاتھ سے) مارا ‘ میں نے انگشت ہائے مبارک کا نشان اپنے سینے پر دیکھا۔ فرمایا: اے اللہ! گھوڑے کی پشت پر اسے ثبات عطا فرما ‘ اور اسے دوسروں کو ہدایت کی راہ دکھانے والا اور خود ہدایت یافتہ بنا ‘ اس کے بعد جریر رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے ‘ اور ذوالخلصہ کی عمارت کو گرا کر اس میں آگ لگا دی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر بھجوائی۔ جریر رضی اللہ عنہ کے قاصد (ابو ارطاۃ حصین بن ربیعہ) نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر عرض کیا اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ میں اس وقت تک آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا ‘ جب تک ہم نے ذوالخلصہ کو ایک خالی پیٹ والے اونٹ کی طرح نہیں بنا دیا ‘ یا (انہوں نے کہا) خارش والے اونٹ کی طرح (مراد ویرانی سے ہے) جریر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ احمس کے سواروں اور قبیلوں کے تمام لوگوں کے لیے پانچ مرتبہ برکتوں کی دعا فرمائی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث159  
´جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پاس آنے سے نہیں روکا، اور جب بھی مجھے دیکھا میرے روبرو مسکرائے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں گھوڑے پر ٹک نہیں پاتا (گر جاتا ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پہ مارا اور دعا فرمائی: اے اللہ! اس کو ثابت رکھ اور اسے ہدایت کنندہ اور ہدایت یافتہ بنا دے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 159]
اردو حاشہ:
(1)
حضرت جریر رضی اللہ عنہ دراز قد، خوبصورت اور خوش شکل تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں اس امت کا یوسف کہا کرتے تھے۔

(2)
حاضر ہونے سے منع نہیں فرمایا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تشریف فرما ہوتے تھے یا کسی خاص مجلس میں رونق افروز ہوتے تھے اگر میں حاضری کی اجازت چاہتا تو مجھے ضرور اجازت مل جاتی تھی۔
کبھی حاضری سے منع نہیں کیا گیا، یعنی حضرت جریر رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی قرب حاصل تھا۔

(3)
ملاقات کے وقت مسکرانا خوشی کا مظہر ہے، جو محبت کی علامت ہے کیونکہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ملاقات سے خوشی ہوتی ہے، اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خلقی اور خندہ پیشانی کی عادتِ مبارکہ بھی معلوم ہوتی ہے۔

(4)
گھوڑ سواری ایک فن ہے جس کا حصول ایک مجاہد کے لیے بہت ضروری ہے، حضرت جریر رضی اللہ عنہ کو یہ شکایت تھی کہ گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ سکتے تھے، گرنے کا خطرہ محسوس کرتے تھے، اس لیے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی۔
کسی بزرگ ہستی کو اپنی کسی کمزوری سے آگاہ کرنا درست ہے تاکہ کوئی مناسب مشورہ حاصل ہو یا دعا ہی مل جائے۔

(5)
جب کسی بزرگ سے دعا کی درخواست کی جائے تو اسے چاہیے کہ دعا کر دے، انکار نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 159   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2772  
´جنگ میں فتح کی خوشخبری دینے والوں کو بھیجنے کا بیان۔`
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم مجھے ذو الخلصہ ۱؎ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے؟ ۲؎، یہ سن کر جریر رضی اللہ عنہ وہاں آئے اور اسے جلا دیا پھر انہوں نے قبیلہ احمس کے ایک آدمی کو جس کی کنیت ابوارطاۃ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ وہ آپ کو اس کی خوشخبری دیدے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2772]
فوائد ومسائل:

بنو خشعم نے اپنا ایک معبد بنا رکھا تھا۔
جسے وہ (الکعبة الیمانیة) کہتے تھے۔
اس گھرکا نام (خلصہ) اور بت کا نام (ذوالخلصہ) رکھا ہوا تھا۔
حضرت جریر فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور یہ مہم سر کی۔


کسی اہم واقعے کی خوشخبری بھیجنا جائز ہے۔
بشرط یہ کہ اس میں اپنے کردار کا لوگوں کو سنانا اور دکھلانا مقصود نہ ہو بلکہ اسلام کی سر بلندی کی اطلاع دینا مقصود ہویا مسلمانوں کا بڑھاوا اور ان کی حوصلہ افزائی مقصود ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2772   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3020  
3020. حضرت جریر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: تم مجھے ذی الخلصہ سے راحت کیوں نہیں دیتے؟ یہ قبیلہ خشعم میں ایک گھر تھا جس کو کعبہ یمانیہ کہاجاتا تھا۔ حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ میں آپ کا فرمان سن کر قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کے ہمراہ چلا جن کے پاس گھوڑے تھے، لیکن میرا پاؤں گھوڑے پر نہیں جمتا تھا۔ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا جس سے میں نے آپ کي انگلیوں کے نشانات اپنے سینے پر دیکھے اور آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ!اس کو گھوڑے پر جمادے۔ اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنادے۔ الغرض حضرت جریر ؓوہاں گئے اور اس بت کوتوڑ کر جلادیا، پھر رسول اللہ ﷺ کو ایک آدمی کے ذریعے سے اس کی اطلاع دی۔ حضرت جریر ؓ کے قاصد نے بیان کیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں آپ کے پاس اس وقت آیا ہوں جبکہ وہ بت خالی پیٹ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3020]
حدیث حاشیہ:
ذی الخلصہ نامی بت خانہ حربی کافروں کا مندر تھا‘ جہاں وہ جمع ہوتے‘ اور اسلام کی نہ صرف توہین کرتے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی مختلف تدابیر سوچا کرتے تھے۔
اس لئے آنحضرتﷺ نے اسے ختم کرا کر ایک فساد کے مرکز کو ختم کرا دیا تاکہ عام مسلمان سکون حاصل کرسکیں۔
ذمی کافروں کے عبادت خانے مسلمانوں کی حفاظت میں آجاتے ہیں۔
لہٰذا ان کے لئے ہر دور میں اسلامی سربراہوں نے بڑے بڑے اوقاف مقرر کئے ہیں اور ان کی حفاظت کو اپنا فرض سمجھا ہے جیسا کہ تاریخ شاہد ہے۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3020   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3020  
3020. حضرت جریر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: تم مجھے ذی الخلصہ سے راحت کیوں نہیں دیتے؟ یہ قبیلہ خشعم میں ایک گھر تھا جس کو کعبہ یمانیہ کہاجاتا تھا۔ حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ میں آپ کا فرمان سن کر قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کے ہمراہ چلا جن کے پاس گھوڑے تھے، لیکن میرا پاؤں گھوڑے پر نہیں جمتا تھا۔ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا جس سے میں نے آپ کي انگلیوں کے نشانات اپنے سینے پر دیکھے اور آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ!اس کو گھوڑے پر جمادے۔ اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنادے۔ الغرض حضرت جریر ؓوہاں گئے اور اس بت کوتوڑ کر جلادیا، پھر رسول اللہ ﷺ کو ایک آدمی کے ذریعے سے اس کی اطلاع دی۔ حضرت جریر ؓ کے قاصد نے بیان کیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں آپ کے پاس اس وقت آیا ہوں جبکہ وہ بت خالی پیٹ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3020]
حدیث حاشیہ:
مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ کفار و مشرکین کی قوت کو ہرطرح سے کمزور کریں۔
ان کے رعب و دبدبے اور ان کی طاقت کو کمزور کرکے مسلمانوں کے لیے کامیابی کا راستہ آستان کریں۔
ان پر ہر قسم کی تنگی کرکے انھیں تباہ و برباد کردیا جائے۔
جب دشمن کا اخراج کسی اور طریقے سے ممکن نہ ہو تو ان کے مکانات گرادینے اور باغات جلادینے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ بعض صحابہ کرام ؓسے باغات جلانے کی کراہت منقول ہے۔
شاید انھیں قرائن سے ان کے فتح ہونے کا یقین ہوگیا ہو،اس لیے انھوں نے مکانات وباغات کوتباہ کرنا اچھاخیال نہ کیاتاکہ وہ مسلمانوں کے کام آسکیں۔
(عمدةالقاري: 342/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3020