سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: فضائل و مناقب
35. باب مَنَاقِبِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضى الله عنه
باب: عمار بن یاسر رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
حدیث نمبر: 3799
حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ سِيَاهٍ كُوفِيٌّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا خُيِّرَ عَمَّارٌ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَرْشَدَهُمَا ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ سِيَاهٍ وَهُوَ شَيْخٌ كُوفِيٌّ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ النَّاسُ لَهُ ابْنٌ يُقَالُ لَهُ: يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ثِقَةٌ , رَوَى عَنْهُ يَحْيَى بْنُ آدَمَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمار کو جب بھی دو باتوں کے درمیان اختیار دیا گیا تو انہوں نے اسی کو اختیار کیا جو ان دونوں میں سب سے بہتر اور حق سے زیادہ قریب ہوتی تھی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے عبدالعزیز بن سیاہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اور یہ ایک کوفی شیخ ہیں اور ان سے لوگوں نے روایت کی ہے، ان کا ایک لڑکا تھا جسے یزید بن عبدالعزیز کہا جاتا تھا، ان سے یحییٰ بن آدم نے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (148) (تحفة الأشراف: 17396) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ بات عمار رضی الله عنہ کے فطرتاً حق پسند ہونے، اور اللہ کی طرف سے ان کے لیے حسن توفیق پر دلیل ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (148)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث97  
´صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نہیں جانتا کہ کب تک میں تمہارے درمیان رہوں، پس میرے بعد ان دونوں کی پیروی کرنا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کی جانب اشارہ کیا۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 97]
اردو حاشہ:
(1)
اس میں شیخین رضی اللہ عنہما کی خلافت کا واضح اشارہ ہے۔

(2)
کسی بھی ادارہ، تنظیم یا جماعت کے سربراہ کو چاہیے کہ اپنی تربیت کے ذریعے سے ایسے افراد تیار کرے جو اس کے بعد کام کو خوش اسلوبی سے چلا سکیں۔

(3)
جماعت کے سربرآوردہ افراد کو اہمیت دی جانی چاہیے، تاہم سربراہ کے بعد اس کا مقام لینے والے کا تعین اہل حل و عقد کے مشورے ہی سے ہو گا۔

(4)
شیخین کی رائے اور اجتہاد دیگر صحابہ کرام اور ائمہ عظام کی رائے سے وزنی اور قیمتی ہے بلکہ قابل اتباع ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 97   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث148  
´عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمار پر جب بھی دو کام پیش کئے گئے تو انہوں نے ان میں سے بہترین کام کا انتخاب کیا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 148]
اردو حاشہ:
(1)
دو کام پیش کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی ایسا موقع پیش آئے جب دو میں سے ایک کام کا انتخاب کرنا پڑے تو عمار رضی اللہ عنہ کا انتخاب صحیح ہوتا ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی خاص توفیق ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کا نتیجہ ہے، تاہم اس بنا پر انہیں معصوم عن الخطاء قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ صرف نبی کی شان ہوتی ہے۔

(2)
اس سے اور اس قسم کی دوسری احادیث سے یہ دلیل لی گئی ہے کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے اختلاف کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا موقف زیادہ درست تھا کیونکہ جنگ کے دوران میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حمایت کی تھی۔

(3)
اس روایت کی صحت کی تصریح بھی بعض محققین نے کی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 148   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3799  
´عمار بن یاسر رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمار کو جب بھی دو باتوں کے درمیان اختیار دیا گیا تو انہوں نے اسی کو اختیار کیا جو ان دونوں میں سب سے بہتر اور حق سے زیادہ قریب ہوتی تھی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3799]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ بات عمار رضی اللہ عنہ کے فطرتاً حق پسند ہونے،
اوراللہ کی طرف سے ان کے لیے حسن توفیق پر دلیل ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3799   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3662  
´ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے مناقب و فضائل کا بیان`
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اقتداء کرو ان دونوں کی جو میرے بعد ہوں گے، یعنی ابوبکر و عمر کی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3662]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے یکے بعد دیگرے ابوبکراورعمر رضی اللہ عنہما دونوں کی خلافت کی طرف اشارہ ہے اور یہ دونوں کے لیے فضیلت کی بات ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3662   
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مَوْلًى لِرِبْعِيٍّ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " إِنِّي لَا أَدْرِي مَا قَدْرُ بَقَائِي فِيكُمْ، فَاقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي، وَأَشَارَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، وَاهْتَدُوا بِهَدْيِ عَمَّارٍ، وَمَا حَدَّثَكُمْ ابْنُ مَسْعُودٍ فَصَدِّقُوهُ ". هَذَا حَسَنٌ، وَرَوَى إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ هِلَالٍ مَوْلَى رِبْعِيٍّ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ حُذَيْفَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَقَدْ رَوَى سَالِمٌ الْمُرَادِيُّ الْكُوفِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ هَرِمٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا.
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا: میں نہیں جانتا کہ میں تم میں کب تک رہوں گا (یعنی کتنے دنوں تک زندہ رہوں گا) تو تم ان دونوں کی پیروی کرنا جو میرے بعد ہوں گے (اور آپ نے ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کی طرف اشارہ کیا اور عمار کی روش پر چلنا اور ابن مسعود جو تم سے بیان کریں اسے سچ جاننا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- ابراہیم بن سعد نے بھی اس حدیث کی روایت، بطریق: «سفيان الثوري عن عبد الملك بن عمير عن هلال مولى ربعي عن ربعي عن حذيفة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح کی ہے، اور سالم مرادی کوفی نے بطریق: «عمرو بن هرم عن ربعي ابن حراش عن حذيفة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3263 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں عمار رضی الله عنہ کے ساتھ ساتھ ابوبکر و عمر رضی الله عنہما اور ابن مسعود رضی اللہ کی منقبت بھی بیان کی گئی ہے، یہ منقبت یہ ہے کہ بزبان رسالت ان کے ہدایت پر ہونے کی گواہی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (148)