صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
157. بَابُ الْحَرْبُ خَدْعَةٌ:
باب: لڑائی مکر و فریب کا نام ہے۔
حدیث نمبر: 3028
وَسَمَّى الْحَرْبَ خَدْعَةً".
‏‏‏‏ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑائی کو مکر اور فریب فرمایا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3028  
3028. اور آپ ﷺ نے لڑائی کو مکرو فریب کا نام دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3028]
حدیث حاشیہ:
اس زمانے میں روم اور ایران میں مستحکم حکومتیں قائم تھیں۔
ایرانی بادشاہ کو لفظ کسریٰ سے اور رومی بادشاہ کو لفظ قیصر سے ملقب کرتے تھے۔
ان ملکوں میں بادشاہوں کو خدا کے درجے میں سمجھا جاتا اور رعایا ان کی پرستش کیا کرتی تھی۔
آخر اسلام ایسے ہی مظالم اور انسانی دکھوں کو ختم کرنے آیا۔
اور اس نے لا إله إلا اللہ کا نعرہ بلند کیا کہ حقیقی بادشاہ صرف ایک اللہ رب العالمین ہے‘ دنیا میں بادشاہی کا غرور رکھنے والے اور رعایا کا خون چوسنے والے لوگ جھوٹے مکار ہیں۔
آخر ایسے مظالم کا ہمیشہ کے لئے ہر دو ملکوں سے خاتمہ ہوگیا اور عہد خلافت میں ہر دو ملکوں میں اسلامی پرچم لہرانے لگا۔
جس کے نیچے لوگوں نے سکھ اور اطمینان کا سانس لیا اور یہ ظالمانہ شاہیت ہر دو ملکوں سے نیست و نابود ہوگئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3028   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3028  
3028. اور آپ ﷺ نے لڑائی کو مکرو فریب کا نام دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3028]
حدیث حاشیہ:

قریش اکثر تجارت پیشہ تھے اور بغرض تجارت شام اور عراق جاتے تھے۔
وہ جب مسلمان ہوئے تو انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اب قیصروکسریٰ کی حکومتیں ہماری تجارت میں رکاوٹ بنیں گی تو آپ نے انھیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
اب ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کسری ٰ ہلاک ہوچکا تھا اور قیصر اس وقت زندہ تھا۔
اگرچہ قیصر وکسریٰ اس کے بعد بھی ہوئے ہیں لیکن ان کاوہ رعب و دبدبہ جو پہلے تھا وہ ختم ہوگیا اور وہ صرف نام کے قیصر وکسریٰ رہ گئے تھے۔

واضح رہے کہ روم کے بادشاہ کو قیصر اور ایران وعراق کے بادشاہ کو کسریٰ کہاجاتا تھا۔

رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق مسلمانوں نے ان کے ملکوں کو فتح کیا اور ان کے خزانے اللہ کی راہ میں تقسیم کیے۔

رسول اللہ ﷺ نے لڑائی کو دھوکے اور فریب کا نام دیا ہے،یعنی لڑائی میں جنگی چالوں کے ذریعے سے دشمن کو دھوکا دیا جاسکتا ہے لیکن اس سے مراد دغابازی کرنا اور عہد توڑنا نہیں کیونکہ ایسا کرنا حرام اورناجائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3028