سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: فضائل و مناقب
61. باب فَضْلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَسَلَّمَ
باب: فاطمہ رضی الله عنہا کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 3870
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ الْهَمْدَانِيُّ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ صُبَيْحٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَليٍّ , وَفَاطِمَةَ , وَالْحَسَنِ , وَالْحُسَيْنِ: " أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ، وَسَلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَصُبَيْحٌ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی الله عنہم سے فرمایا: میں لڑنے والا ہوں اس سے جس سے تم لڑو اور صلح جوئی کرنے والا ہوں اس سے جس سے تم صلح جوئی کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور صبیح مولیٰ ام سلمہ معروف نہیں ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (145) (تحفة الأشراف: 3662) (ضعیف) (سند میں صبیح لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (145) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (27) ، المشكاة (6145) //
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث145  
´علی رضی اللہ عنہ کے بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے مناقب و فضائل۔`
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رضی اللہ عنہم) سے فرمایا: میں اس شخص کے لیے سراپا صلح ہوں جس سے تم لوگوں نے صلح کی، اور سراپا جنگ ہوں اس کے لیے جس سے تم لوگوں نے جنگ کی۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 145]
اردو حاشہ:
اس قسم کی روایات سے ان صحابہ و تابعین کی مذمت پر استدلال کیا جاتا ہے، جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا مبینہ طور پر یا واقعتاً اختلاف ہوا، حالانکہ اول تو یہ روایت ہی ضعیف ہے۔
ثانیاً اگر غور کیا جائے تو اس سے ان لوگوں کی مذمت نکلتی ہے جنہوں نے علی رضی اللہ عنہ یا حسین رضی اللہ عنہ سے محبت اور ان کی اطاعت و نصرت کا دعوی کیا اور پھر ان سے غداری کر کے انہیں شہید کر دیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ایک خارجی کے ہاتھ سے ہوئی اور خوارج شروع میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پارٹی میں شامل تھے، بعد میں مخالف ہوئے۔
اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ بلانے والے اور بعد میں انہیں شہید کرنے والے بھی وہی تھے جو ان سے محبت کا دعویٰ رکھتے تھے۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی۔
اس روایت کی روشنی میں معاویہ رضی اللہ عنہ مخالفین میں سے خارج ہو گئے، لہذا ان پر طعن کرنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 145