سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: فضائل و مناقب
61. باب فَضْلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَسَلَّمَ
باب: فاطمہ رضی الله عنہا کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 3872
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: " مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشْبَهَ سَمْتًا , وَدَلًّا , وَهَدْيًا بِرَسُولِ اللَّهِ فِي قِيَامِهَا , وَقُعُودِهَا مِنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَكَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا , وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا قَامَتْ مِنْ مَجْلِسِهَا فَقَبَّلَتْهُ وَأَجْلَسَتْهُ فِي مَجْلِسِهَا، فَلَمَّا مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَتْ فَاطِمَةُ فَأَكَبَّتْ عَلَيْهِ , فَقَبَّلَتْهُ، ثُمَّ رَفَعَتْ رَأْسَهَا , فَبَكَتْ، ثُمَّ أَكَبَّتْ عَلَيْهِ , ثُمَّ رَفَعَتْ رَأْسَهَا فَضَحِكَتْ، فَقُلْتُ: إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ أَنَّ هَذِهِ مِنْ أَعْقَلِ نِسَائِنَا فَإِذَا هِيَ مِنَ النِّسَاءِ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ لَهَا: أَرَأَيْتِ حِينَ أَكْبَبْتِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَفَعْتِ رَأْسَكِ , فَبَكَيْتِ , ثُمَّ أَكْبَبْتِ عَلَيْهِ , فَرَفَعْتِ رَأْسَكِ , فَضَحِكْتِ، مَا حَمَلَكِ عَلَى ذَلِكَ؟ قَالَتْ: إِنِّي إِذًا لَبَذِرَةٌ أَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَيِّتٌ مِنْ وَجَعِهِ هَذَا , فَبَكَيْتُ، ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي أَسْرَعُ أَهْلِهِ لُحُوقًا بِهِ , فَذَاكَ حِينَ ضَحِكْتُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے کے طور و طریق اور عادت و خصلت میں فاطمہ ۱؎ رضی الله عنہ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا، وہ کہتی ہیں: جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ اٹھ کر انہیں بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے، اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آتے تو وہ اٹھ کر آپ کو بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں چنانچہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو فاطمہ آئیں اور آپ پر جھکیں اور آپ کو بوسہ لیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور رونے لگیں پھر آپ پر جھکیں اور اپنا سر اٹھایا تو ہنسنے لگیں، پہلے تو میں یہ خیال کرتی تھی کہ یہ ہم عورتوں میں سب سے زیادہ عقل والی ہیں مگر ان کے ہنسنے پر یہ سمجھی کہ یہ بھی آخر (عام) عورت ہی ہیں، یعنی یہ کون سا موقع ہنسنے کا ہے، پھر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا بات تھی کہ میں نے تمہیں دیکھا کہ تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھکیں پھر سر اٹھایا تو رونے لگیں، پھر جھکیں اور سر اٹھایا تو ہنسنے لگیں، تو انہوں نے کہا: اگر آپ کی زندگی میں یہ بات بتا دیتی تو میں ایک ایسی عورت ہوتی جو آپ کے راز کو افشاء کرنے والی ہوتی، بات یہ تھی کہ پہلے آپ نے مجھے اس بات کی خبر دی کہ اس بیماری میں میں انتقال کر جانے والا ہوں، یہ سن کر میں رو پڑی، پھر آپ نے مجھے بتایا کہ ان کے گھر والوں میں سب سے پہلے میں ان سے ملوں گی، تو یہ سن کر میں ہنسنے لگی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور یہ عائشہ سے متعدد سندوں سے آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 155 (5217) (تحفة الأشراف: 17883) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے فاطمہ رضی الله عنہا کی منقبت کئی طرح سے ثابت ہوتی ہے، ۱- فاطمہ رضی الله عنہا آپ سے اخلاق و عادات میں بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھیں،
۲- فاطمہ رضی الله عنہا آپ کو اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ پیاری تھیں،
۳- آخرت میں آپ سے شرف رفاقت سب سے پہلے فاطمہ رضی الله عنہا کو حاصل ہوئی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح نقد الكتانى (44 - 45)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1621  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اکٹھا ہوئیں اور ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہی، اتنے میں فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں، ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال کی طرح تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری بیٹی! خوش آمدید پھر انہیں اپنے بائیں طرف بٹھایا، اور چپکے سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں، پھر چپکے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے ان سے پوچھا کہ تم کیوں روئیں؟ تو انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ عل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1621]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کے دوران میں پیش آیا جب تمام امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھیں۔
مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے الرحیق المختوم میں اسے حیات مبارکہ کے آخری دن کا واقعہ قرا ردیا ہے۔
اور فرمایا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آخری دن نہیں بلکہ آخری ہفتے میں کسی دن پیش آیا تھا۔
واللہ أعلم، دیکھئے: (الرحیق المختوم اردو طبع مکتبہ سلفیہ ص: 628)
 اس حدیث میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شرف اور فضیلت کا اظہار ہے جنھیں رسول اللہ ﷺ نے خاص راز عطا فرمایا۔

(3)
راز کے طور پر بتائی ہوئی بات ظاہر کرنا مناسب نہیں کیونکہ راز ایک امانت کی حیثیت رکھتا ہے۔
اور امانت میں خیانت کرنا حرام ہے۔

(4)
رسول اللہ ﷺ کا حضرت فاطمہ کو مستقبل کی خبر دینا اور واقعات کا اسی طرح پیش آنا آپ ﷺ کی نبوت ورسالت کی دلیل ہے۔
رسول اللہﷺ نے جس قدر پیش گویئاں فرمائی ہیں۔
وہ سب کی سب اسی طرح بعینہ پوری ہویئں ہیں۔
جس طرح فرمائی گئی تھیں۔
جن پیش گویئوں کے ابھی پورا ہونے کاوقت نہیں آیا۔
ان کے بارے میں بھی ہمارا ایمان ہے کہ وہ ضرور پوری ہوں گی۔

(5)
حفاظ کرام کا آپس میں دور کرنا اور بالخصوص رمضان المبارک میں اس کا اہتمام کرنا سنت نبوی ﷺ ہے۔

(6)
عمر کے آخری حصے میں نیکی کے کاموں کا اہتما م زیاہ ہونا چاہیے۔

(7)
دوست احباب اور اقارب کے لئے اگر کسی خوش کن خبر کا علم ہوتو انھیں خوش خبری دینی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1621   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3872  
´فاطمہ رضی الله عنہا کی فضیلت کا بیان`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے کے طور و طریق اور عادت و خصلت میں فاطمہ ۱؎ رضی الله عنہ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا، وہ کہتی ہیں: جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ اٹھ کر انہیں بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے، اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آتے تو وہ اٹھ کر آپ کو بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں چنانچہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو فاطمہ آئیں اور آپ پر جھکیں اور آپ کو بوسہ لیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور رونے لگیں پھر آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3872]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی منقبت کئی طرح سے ثابت ہوتی ہے۔


فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ سے اخلاق وعادات میں بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھیں۔


فاطمہ آپﷺ کو اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ پیاری تھیں۔


آخرت میں آپﷺ سے شرف رفاقت سب سے پہلے فاطمہ کو حاصل ہوئی (رضی اللہ عنہا)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3872