صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
159. بَابُ الْفَتْكِ بِأَهْلِ الْحَرْبِ:
باب: جنگ میں حربی کافر کو اچانک دھوکے سے مار ڈالنا۔
حدیث نمبر: 3032
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ، فَقَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأْذَنْ لِي فَأَقُولَ، قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعب بن اشرف کے لیے کون ہمت کرتا ہے؟ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کیا میں اسے قتل کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! انہوں نے عرض کیا کہ پھر آپ مجھے اجازت دیں (کہ میں جو چاہوں جھوٹ سچ کہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری طرف سے اس کی اجازت ہے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2768  
´دشمن کے پاس دھوکہ سے پہنچنا اور یہ ظاہر کرنا کہ وہ انہی میں سے ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہے۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو کعب بن اشرف ۱؎ کے قتل کا بیڑا اٹھائے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے، یہ سن کر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور بولے: اللہ کے رسول! میں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس کو قتل کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں کچھ کہہ سکوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، کہہ سکتے ہو، پھر انہوں نے کعب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2768]
فوائد ومسائل:

کعب بن اشرف یہودی کا تعلق بنو نضیرسے تھا۔
وہ بڑا مال داراور شاعر تھا۔
اسے مسلمانوں سے سخت عداوت تھی۔
اور لوگوں کو رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف برانگیختہ کرتا رہتا تھا۔
اس نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان کا دفاع کرنے کی بجائے مکہ جا کر قریش کو جنگ کے لئے آمادہ کیا۔
اور عہد شکنی بھی کی۔


دشمن پر وار کرنے کےلئے بناوٹی طور پر کچھ ایسی باتیں بنانا جو بظاہر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہوں۔
وقتی طور پر جائز ہے۔
اور جنگ دھوکے (چال بازی) کا نام ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2768   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3032  
3032. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کعب بن اشرف کو قتل کرنے کی کون ہمت کرتا ہے؟ حضرت محمد بن مسلمہ ؓنے پوچھا: کیا آپ پسند کرتے ہیں میں اسے قتل کردوں؟ آپ نےفرمایا: ہاں۔ اس نے عرض کیا: آپ مجھ کچھ کہنے کی اجازت دے دیں۔ آپ نے فرمایا: تمھیں اجازت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3032]
حدیث حاشیہ:
یہاں چونکہ کعب بن اشرف پر دھوکہ سے اچانک حملہ کرنے کا ذکر ہے جو حضرت محمد مسلمہؓ نے کیا تھا‘ اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔
مزید تفصیل مذکور ہوچکی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3032   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3032  
3032. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کعب بن اشرف کو قتل کرنے کی کون ہمت کرتا ہے؟ حضرت محمد بن مسلمہ ؓنے پوچھا: کیا آپ پسند کرتے ہیں میں اسے قتل کردوں؟ آپ نےفرمایا: ہاں۔ اس نے عرض کیا: آپ مجھ کچھ کہنے کی اجازت دے دیں۔ آپ نے فرمایا: تمھیں اجازت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3032]
حدیث حاشیہ:

کعب بن اشرف یہودیوں کا طاغوت تھا۔
اشعار میں رسول اللہ ﷺ کی ہجوکرتا اور آپ کے لیے اذیت کا باعث تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے قتل کردینے کی خواہش کا اظہار کیا توحضرت محمد بن مسلمہ ؓنے اس کارخیر کی ذمہ داری قبول کی اور اسے قتل کردیا۔
یہ کہنادرست نہیں کہ محمد بن مسلمہ ؓ نے کعب بن اشرف کو امن دے کر قتل کیا تھا بلکہ انھوں نے خرید و فروخت کی بات کی اور ا س سے انس پیداکیا،پھر موقع پاکراسے قتل کردیا۔

اسی چالاکی ہوشیاری کانام جنگ ہے جس کے بغیر چارہ نہیں۔
آج کے مشینی دور میں بھی دشمن کی گھات میں بیٹھنا اقوام کا معمول ہے۔
اسلام میں یہ اجازت صرف حربی کافروں کے مقابلے کے لیے ہے،بصورت دیگر کسی کو دھوکے میں رکھ کر کوئی اقدام کرنا شرعاً جائز نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3032