سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: فضائل و مناقب
67. باب فِي أَىِّ دُورِ الأَنْصَارِ خَيْرٌ
باب: انصار کے کن گھروں اور قبیلوں میں خیر ہے
حدیث نمبر: 3913
حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ الْأَنْصَارِ بَنُو عَبْدِ الْأَشْهَلِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
جابر عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصار میں سب سے بہتر بنی عبدالاشہل ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: سابقہ حدیث میں «بنی اشہل» کا ذکر «بنی نجار» کے بعد آیا ہے، تو یہاں «من» کا لفظ محذوف ماننا ہو گا، یعنی: «بنی اشہل» انصار کے سب سے بہتر خاندانوں میں سے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح بما قبله (3912)
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3913  
´انصار کے کن گھروں اور قبیلوں میں خیر ہے`
جابر عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصار میں سب سے بہتر بنی عبدالاشہل ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3913]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سابقہ حدیث میں بنی اشہل کا ذکر بنی نجار کے بعد آیا ہے،
تو  یہاں من کا لفظ محذوف ماننا ہو گا،
یعنی: بنی اشہل انصارکے سب سے بہتر خاندانوں میں سے ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3913   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3912  
´انصار کے کن گھروں اور قبیلوں میں خیر ہے`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصار کے گھروں میں سب سے بہتر گھر بنی نجار کے گھر ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3912]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بنی نجار ہی میں نبی اکرمﷺکے والد عبداللہ کا نانیہال تھا،
یہ آپﷺ کے ماموؤں کا خاندان تھا،
نیز اسلام میں نسبت بھی اسی قبیلے نے کی تھی،
یا اسلام میں ان کی قربانیاں دیگر خاندان کی بنسبت زیادہ تھیں۔

نوٹ:
(سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں،
لیکن سابقہ حدیث کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3912