صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
162. بَابُ مَنْ لاَ يَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ:
باب: جو گھوڑے پر اچھی طرح نہ جم سکتا ہو (اس کے لیے دعا کرنا)۔
حدیث نمبر: 3036
وَلَقَدْ شَكَوْتُ إِلَيْهِ إِنِّي لَا أَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ فَضَرَبَ بِيَدِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ:" اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا".
‏‏‏‏ ایک دفعہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی کہ میں گھوڑے کی پیٹھ پر اچھی طرح نہیں جم پاتا ہوں ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر اپنا دست مبارک مارا ‘ اور دعا کی «اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا» اے اللہ! اسے گھوڑے پر جما دے اور دوسروں کو سیدھا راستہ بتانے والا بنا دے اور خود اسے بھی سیدھے راستے پر قائم رکھ۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث159  
´جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پاس آنے سے نہیں روکا، اور جب بھی مجھے دیکھا میرے روبرو مسکرائے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں گھوڑے پر ٹک نہیں پاتا (گر جاتا ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پہ مارا اور دعا فرمائی: اے اللہ! اس کو ثابت رکھ اور اسے ہدایت کنندہ اور ہدایت یافتہ بنا دے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 159]
اردو حاشہ:
(1)
حضرت جریر رضی اللہ عنہ دراز قد، خوبصورت اور خوش شکل تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں اس امت کا یوسف کہا کرتے تھے۔

(2)
حاضر ہونے سے منع نہیں فرمایا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تشریف فرما ہوتے تھے یا کسی خاص مجلس میں رونق افروز ہوتے تھے اگر میں حاضری کی اجازت چاہتا تو مجھے ضرور اجازت مل جاتی تھی۔
کبھی حاضری سے منع نہیں کیا گیا، یعنی حضرت جریر رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی قرب حاصل تھا۔

(3)
ملاقات کے وقت مسکرانا خوشی کا مظہر ہے، جو محبت کی علامت ہے کیونکہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ملاقات سے خوشی ہوتی ہے، اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خلقی اور خندہ پیشانی کی عادتِ مبارکہ بھی معلوم ہوتی ہے۔

(4)
گھوڑ سواری ایک فن ہے جس کا حصول ایک مجاہد کے لیے بہت ضروری ہے، حضرت جریر رضی اللہ عنہ کو یہ شکایت تھی کہ گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ سکتے تھے، گرنے کا خطرہ محسوس کرتے تھے، اس لیے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی۔
کسی بزرگ ہستی کو اپنی کسی کمزوری سے آگاہ کرنا درست ہے تاکہ کوئی مناسب مشورہ حاصل ہو یا دعا ہی مل جائے۔

(5)
جب کسی بزرگ سے دعا کی درخواست کی جائے تو اسے چاہیے کہ دعا کر دے، انکار نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 159   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2772  
´جنگ میں فتح کی خوشخبری دینے والوں کو بھیجنے کا بیان۔`
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم مجھے ذو الخلصہ ۱؎ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے؟ ۲؎، یہ سن کر جریر رضی اللہ عنہ وہاں آئے اور اسے جلا دیا پھر انہوں نے قبیلہ احمس کے ایک آدمی کو جس کی کنیت ابوارطاۃ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ وہ آپ کو اس کی خوشخبری دیدے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2772]
فوائد ومسائل:

بنو خشعم نے اپنا ایک معبد بنا رکھا تھا۔
جسے وہ (الکعبة الیمانیة) کہتے تھے۔
اس گھرکا نام (خلصہ) اور بت کا نام (ذوالخلصہ) رکھا ہوا تھا۔
حضرت جریر فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور یہ مہم سر کی۔


کسی اہم واقعے کی خوشخبری بھیجنا جائز ہے۔
بشرط یہ کہ اس میں اپنے کردار کا لوگوں کو سنانا اور دکھلانا مقصود نہ ہو بلکہ اسلام کی سر بلندی کی اطلاع دینا مقصود ہویا مسلمانوں کا بڑھاوا اور ان کی حوصلہ افزائی مقصود ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2772   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3036  
3036.۔(حضرت جریر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ) میں نے آپ کی خدمت میں شکایت کی کہ میں اپنے گھوڑے پر ٹک کر نہیں بیٹھ سکتا تو آپ نے میرے سینے پر اپنا دست مبارک مارا اور دعا دی: اے اللہ!اسے گھوڑے پر جما دے اور اسے دوسروں کو سیدھا راستہ بتانے والا اور خود سیدھے راستے پر چلنے والا بنادے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3036]
حدیث حاشیہ:
مجاہد کے لئے دعا کرنا ثابت ہوا۔
کسی بھی اس کی حاجت سے متعلق ہو۔
حضرت جریر بن عبداللہ بجلی ؓ گھوڑے کی سواری میں پختہ نہیں تھے۔
اللہ نے اپنے حبیب کی دعا سے ان کی اس کمزوری کو دور کردیا۔
یہی بزرگ صحابی ہیں جنہوں نے یمن کے بت خانہ ذی الخلصہ کو ختم کیا تھا جو یمن میں کعبہ شریف کے مقابلہ پر بنایا گیا تھا۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3036   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3036  
3036.۔(حضرت جریر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ) میں نے آپ کی خدمت میں شکایت کی کہ میں اپنے گھوڑے پر ٹک کر نہیں بیٹھ سکتا تو آپ نے میرے سینے پر اپنا دست مبارک مارا اور دعا دی: اے اللہ!اسے گھوڑے پر جما دے اور اسے دوسروں کو سیدھا راستہ بتانے والا اور خود سیدھے راستے پر چلنے والا بنادے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3036]
حدیث حاشیہ:

حضرت جریربن عبداللہ ؓاپنی قوم کے ذی وجاہت سردارتھے،اس لیے رسول اللہ ﷺ ان کا اکرام کرتے اور انھیں ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔
اس طرح ملنے سے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ گھڑ سواری میں مہارت حاصل کرنی چاہیے۔

اس حدیث سے مجاہد کی کسی بھی حاجت کے لیے دعا کرنا ثابت ہے۔
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ گھوڑے کی سواری میں پختہ کار نہیں تھے،اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی دعا سے اس کمزوری کو دور کردیا،پھر انھوں نے یمن کے بت خانے کو خاکستر کیا جو کعبے کے مقابلے میں بنایا گیاتھا۔
۔
۔
رضي اللہ تعالیٰ عنه۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3036