صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
164. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالاِخْتِلاَفِ فِي الْحَرْبِ وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَى إِمَامَهُ:
باب: جنگ میں جھگڑا اور اختلاف کرنا مکروہ ہے اور جو سردار لشکر کی نافرمانی کرے، اس کی سزا کا بیان۔
وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَلاَ تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ}. قَالَ قَتَادَةُ الرِّيحُ الْحَرْبُ.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الانفال میں) فرمایا «ولا تنازعوا فتفشلوا وتذهب ريحكم‏» آپس میں پھوٹ نہ پیدا کرو کہ اس سے تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ قتادہ نے کہا کہ (آیت میں) «ريح» سے مراد لڑائی سے۔
حدیث نمبر: 3038
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا وأَبَا مُوسَى إِلَى الْيَمَنِ، قَالَ:" يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا، وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا".
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے ‘ ان سے سعید بن ابی بردہ نے ‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ان کے دادا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ اور ابوموسیٰ کو یمن بھیجا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ ہدایت فرمائی تھی کہ (لوگوں کے لیے) آسانی پیدا کرنا ‘ انہیں سختیوں میں مبتلا نہ کرنا ‘ ان کو خوش رکھنا ‘ نفرت نہ دلانا ‘ اور تم دونوں آپس میں اتفاق رکھنا ‘ اختلاف نہ پیدا کرنا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4835  
´جھگڑے اور فساد کی برائی کا بیان۔`
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ میں سے کسی کو اپنے کام کے لیے بھیجتے تو فرماتے، خوشخبری دینا، نفرت مت دلانا، آسانی اور نرمی کرنا، دشواری اور مشکل میں نہ ڈالنا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4835]
فوائد ومسائل:
قائد اور صاحبِ منصب کے لیئے خاص نبوی ہدایت یہ ہے کہ اپنے ماتحت افراد کے لیئے نرمی اور آسانی پیدا کرنے والا بنے۔
بے مقصد سختی مخالفت کا باعث بنتی ہے۔
جو نفرت لاتی ہے اور کسی بھی نظم اور اجتماعیت کے لیے سم قاتل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4835   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3038  
3038. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ اور ابو موسیٰ ؓ کو یمن بھیجا تو (ان سے)فرمایا: لوگوں پر آسانی کرنا، ان پر سختی نہ کرنا، انھیں خوشخبری دینا اور نفرت نہ دلانا اور آپس میں ایک دوسرے کی موافقت کرنا باہم اختلاف نہ کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3038]
حدیث حاشیہ:
آیت مذکورہ فی الباب ایک ایسی کلیدی ہدایت پر مشتمل ہے جس پر پوری ملت کے تنزل و ترقی کا دار و مدار ہے۔
جب تک اس ہدایت پر عمل رہا‘ مسلمان دنیا پر حکمران رہے اور جب سے باہمی تنازع و افتراق شروع ہوا‘ امت کی قوت پارہ پارہ ہو کر رہ گئی۔
قرآن مجید کی بہت سی آیات اور احادیث نبوی کی بہت سی مرویات موجود ہیں‘ جن میں امت کو اتفاق باہمی کی تاکید کی گئی اور اتفاق و اتحاد اور مودت باہمی کے فوائد سے آگاہ کیا گیا ہے اور تنازع و افتراق کی خرابیوں سے خبر دی گئی ہے۔
خود آیت باب میں غیر معمولی تنبیہ موجود ہے کہ تنازع کا نتیجہ یہ ہے کہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور تم بزدل بن جاؤ گے۔
ہوا اکھڑنے کا مطلب ظاہر ہے کہ غیر اقوام کی نظروں میں بے وقعت ہو جاؤ گے اور جرأت و بہادری مفقود ہو کر تم پر بزدلی چھا جائے گی۔
دور حاضرہ میں عربوں کے باہمی تنازع کا نتیجہ سقوط بیت المقدس کی شکل میں موجود ہے کہ مٹھی بھر یہودی کروڑوں مسلمانوں کو نظر انداز کرکے مسجد اقصیٰ پر قابض بنے بیٹھے ہیں۔
حدیث معاذ کی ہدایات بھی بہت سے فوائد پر مشتمل ہیں۔
لوگوں کے لئے شرعی دائرہ کے اندر اندر ہر ممکن آسانی پیدا کرنا‘ سختی کے ہر پہلو سے بچنا‘ لوگوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرنا‘ کوئی نفرت پیدا کرنے کا کام نہ کرنا‘ یہ وہ قیمتی ہدایات ہیں جو ہر عالم‘ مبلغ‘ خطیب‘ مدرس‘ مرشد‘ ہادی کے پیش نظر رہنی ضروری ہیں۔
ان علماء و مبلغین کے لئے بھی غور کا مقام ہے جو سختیوں اور نفرتوں کے پیکر ہیں۔
ھدام اللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3038   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3038  
3038. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ اور ابو موسیٰ ؓ کو یمن بھیجا تو (ان سے)فرمایا: لوگوں پر آسانی کرنا، ان پر سختی نہ کرنا، انھیں خوشخبری دینا اور نفرت نہ دلانا اور آپس میں ایک دوسرے کی موافقت کرنا باہم اختلاف نہ کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3038]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ اپنے حکام کو ہدایات دیتے تھے کہ وہ امور اختیار کریں جن میں لوگوں کے لیے آسانی ہو،ان کے لیے کسی قسم کی مشقت یا سختی کا پہلو نہ ہو۔
انھیں اچھی خبر دی جائیں جن سے ان کے حوصلے بلند ہوں اور ایسی باتیں نہ کی جائیں جن کی وجہ سے وہ باہمی نفرت کا شکار ہوجائیں،نیز ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کریں اور باہمی اختلاف سے بچیں کیونکہ اس سے افراتفری پھیلتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3038