سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: فضائل و مناقب
75. باب فِي فَضْلِ الشَّأْمِ وَالْيَمَنِ
باب: شام اور یمن کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 3953
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنُ ابْنَةِ أَزْهَرَ السَّمَّانِ، حَدَّثَنِي جَدِّي أَزْهَرُ السَّمَّانُ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَأمِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا "، قَالُوا: وَفِي نَجْدِنَا، قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا "، قَالُوا: وَفِي نَجْدِنَا، قَالَ: " هُنَاكَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِهَا، أَوْ قَالَ: مِنْهَا، يَخْرُجُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَوْنٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، لوگوں نے عرض کیا: اور ہمارے نجد میں، آپ نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، لوگوں نے عرض کیا: اور ہمارے نجد میں، آپ نے فرمایا: یہاں زلزلے اور فتنے ہیں، اور اسی سے شیطان کی سینگ نکلے گی، (یعنی شیطان کا لشکر اور اس کے مددگار نکلیں گے) ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے یعنی ابن عون کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- یہ حدیث بطریق: «سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» بھی آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستسقاء 27 (1037)، والفتن 16 (7094) (تحفة الأشراف: 7745) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: محقق شارحین حدیث نے قطعی دلائل اور تاریخی حقائق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس حدیث میں مذکور نجد سے مراد عراق ہے، تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ دینی فتنے زیادہ تر عراق سے اٹھے، لغت میں نجد اونچی زمین (سطح مرتفع) کو کہا جاتا ہے، سعودیہ میں واقع نجد کو بھی اسی وجہ سے نجد کہا جاتا ہے، اس اعتبار سے عراق پر بھی نجد کا لفظ صادق آتا ہے، اور حسی و معنوی دینی فتنوں کے عراق سے ظہور نے یہ ثابت کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہی عراق اور مضافات کا علاقہ تھا، بدعتی فرقوں نے اس حدیث کا مصداق شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تحریک کو قرار دیا ہے، «شتان مابین الیزیدین» سلف صالحین کے عقیدہ اور فہم شریعت کے مطابق چلائی گئی تحریک چاہے مذمومہ نجد ہی سے کیوں نہ ہو اس حدیث کا مصداق کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر نجدی تحریک مراد ہو گی تو اصل اسلام ہی مراد ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج فضائل الشام (8) ، الصحيحة (2246)
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3498  
´نجد میں فتنے`
«. . . النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مِنْ هَا هُنَا جَاءَتِ الْفِتَنُ نَحْوَ الْمَشْرِقِ وَالْجَفَاءُ وَغِلَظُ الْقُلُوبِ فِي الْفَدَّادِينَ أَهْلِ الْوَبَرِ عِنْدَ أُصُولِ أَذْنَابِ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ فِي رَبِيعَةَ وَمُضَرَ . . .»
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرف سے فتنے اٹھیں گے یعنی مشرق سے اور بے وفائی اور سخت دلی ان لوگوں میں ہے جو اونٹوں اور گایوں کی دم کے پاس چلاتے رہتے ہیں یعنی ربیعہ اور مضر کے لوگوں میں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ: 3498]

فوائد و مسائل
لغوی طور پر نجد بلند علاقے کو کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے دنیا میں بہت سارے نجد ہیں لیکن مذکورہ احادیث میں نجد کی تشریح مشرق اور عراق سے ہوئی ہے۔ ثابت ہوا کہ جو نجد فتنوں کی آماجگاہ ہے اور جہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہو گا، وہ مشرق کی سمت ہے اور اس سے مراد عراق ہی ہے۔ صحیح احادیث نبویہ پکار پکار کر یہی بتا رہی ہیں۔ صحابہ و تابعین کا بھی یہی خیال تھا۔

اسی بارے میں:
◈ مشہور لغوی ابن منظور افریقی (630-711ھ) لکھتے ہیں:
«ما ارتفع من تهامة إلى أرض العراق، فهو نجد .»
تہامہ کی حدود سے لے کر عراق تک جو بلند جگہ ہے، وہ نجد ہے۔ [لسان العرب: 413/3]

◈ احادیث نبویہ کا لغوی حل کرنے والے مشہور لغوی ابن اثیر (544-606 ھ) لکھتے ہیں:
«والنجد: ما ارتفع من الأرض، وهو اسم خاص لما دون الحجاز، مما يلي العراق .»
نجد بلند زمین کو کہتے ہیں۔ یہ حجاز کے باہر عراق سے ملحقہ علاقے کا خاص نام ہے۔ [النهاية فى غريب الحديث والاثر: 19/5]

◈ علامہ خطابی رحمہ اللہ (319-388 ھ) نجد کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهلها، وأصل النجد ما ارتفع من الأرض، والغور ما انخفض منها، وتهامة كلّها من الغور، ومنها مكة، والفتنة تبدو من المشرق، ومن ناحيتها يخرج يأجوج ومأجوج والدّجال، فى أكثر ما يروى من الأخبار.»
مدینہ والوں کا نجد عراق اور اس کے نواح کا علاقہ ہے۔ یہ مدینہ والوں کے مشرق میں واقع ہے۔ نجد کا اصلی معنیٰ بلند زمین ہے۔ نشیبی علاقے کو «غور» کہتے ہیں۔ تہامہ کا سارا علاقہ «غور» ہے۔ مکہ بھی اسی «غور» میں واقع ہے۔ اکثر روایات کے مطابق فتنے کا ظہور مشرق سے ہو گا، اسی جانب سے یاجوج ماجوج نکلیں گے اور یہیں سے دجال رونما ہو گا۔ [إعلام الحديث للخطابي: 4/2 127- ط - المغربية]

◈ امام اندلس حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368 - 463ھ) لکھتے ہیں:
«اشارة رسول الله صلى الله عليه وسلم - والله اعلم - الي ناحية المشرق بالفتنة لأن الفتنة الكبرى التى كانت مفتاح فساد ذات البين، هي قتل عثمان بن عفان رضى الله عنه، وهى كانت سبب وقعة الجمل، وحروب صفين، كانت فى ناحية المشرقي، ثم ظهور الخوارج فى أرض نجد والعراق وما وراء ها من المشرق .»
واللہ اعلم! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فتنے کے حوالے سے اشارہ مشرق کی طرف اس لیے تھا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا، وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت تھی، یہی واقعہ جنگ جمل اور جنگ صفین کا سبب بنا۔ یہ سارے معاملات مشرق کی جانب سے رونما ہوئے۔ پھر خوارج کا ظہور بھی نجد کی زمین یعنی عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔ [الاستذكار: 519/8]

◈ علامہ ابوالحسن علی بن خلف عبدالملک العروف بہ ابن بطال (م: 449 ھ) لکھتے ہیں:
«قال الخطابي: القرن فى الحيوان يضرب به المثل فيما لا یحمد من الأمور، كقوله صلى الله عليه وسلم فى الفتنة وطلوعها من ناحية المشرق: ومنه يطلع قرن الشيطان، وقال فى الشمس: إنها تطلع بين قرني الشيطان، والقرن: الأمة من الناس یحدثون بعد فناء آخرين، قال الشاعر: مضى القرن الذى أنت منهم . . . . وخلفت فى قرن فأنت غريب وقال غيره: كان أهل المشرق يؤمئذ أهل كفر، فأخبره صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك الناحية، وكذلك كانت الفتنة الكبرى التي كانت مفتاح فساد ذات البين، وهى مقتل عثمان رضى الله عنه، وكانت سبب وقعة الجمل وصفين، ثم ظهور الخوارج في ارض نجد والعراق وما وراء ها من المشرق، ومعلوم أن البدع إنما ابتدأت من المشرق، وإن الذين اقتتلوا بالجمل وصفين، بينهم كثير من أهل الشام والحجاز، فإن الفتنة وقعت فى ناحية المشرق، وكان سببا إلى افتراق كلمة المسلمين، وفساد نيات كثير منهم إلى يؤم القيامة، وكان رسول الله يحذر من ذلك ويعلمه قبل وقوعه، وذلك دليل على نبوته.»
حیوان کے سینگ کی مثال قبیح امور میں دی جاتی ہے جیسا کہ مشرق کی جانب سے فتنے کے رونما ہونے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اسی طرف سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے بارے میں فرمایا کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔ سینگ سے مراد لوگوں کی وہ جماعت ہے جو ایک نسل کے گزر جانے کے بعد آتے ہیں۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ جب تیرے ہم عصر لوگ فوت ہو جائیں اور تو رہ جائے تو اس وقت تو اجنبی ہے۔ ایک اہل علم کا کہنا ہے کہ مشرق والے اس دور میں کافر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی کہ فتنہ اسی سمت سے اٹھے گا۔ بالکل ایسے ہی ہوا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا باعث بنا، وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت والا واقعہ تھا! یہی واقعہ بعد میں جنگ جمل اور صفین کا باعث بنا۔ پھر خوارج کا ظہور بھی نجد، عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔ یہ سارے علاقے مشرق میں ہیں۔ سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ بدعات کا آغاز بھی مشرق ہی سے ہوا۔ جنگ جمل اور صفین میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی، ان کی بڑی تعداد شام اور حجاز سے تھی، لہذا یہ فتنہ بھی مشرق ہی میں رونما ہوا۔ یہ سانحات قیامت تک مسلمانوں کے افتراق اور ان کے ایک بڑے گروہ کے نفاق کا باعث بن گئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فساد کے وقوع سے پہلے ہی اس بارے میں آگاہی دے کر اس سے متنبہ کر دیا۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ [شرح صحيح البخاري: 44/10]

◈ حافظ ابن الجوزی (508- 597 ھ) لکھتے ہیں:
«أما تخصيص الفتن بالمشرق، فلان الدجال يخرج من تلك الناحية، وكذلك يأجوج ومأجوج، وأما ذكر قرن الشيطان، فعلى سبيل المثل، كأن إبليس يطلع رأسه بالفتن من تلك النواحي.»
مشرق کے ساتھ فتنوں کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دجال اور یاجوج ماجوج کا ظہور اسی سمت سے ہو گا۔ رہی بات شیطان کے سینگ کی تو یہ بطور مثال ہے، گویا کہ شیطان فتنوں کی صورت میں اس سمت سے اپنا سر اٹھائے گا۔ [كشف المشكل على الصحيحين: 493/2]

◈ شارح بخاری، علامہ کرمانی نجد اور غور کا معنی واضع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«ومن كان بالمدينة الطيبة – صلى الله على ساكنها – كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهلها، ولعل المراد من الزلازل والاضطرابات التى بين الناس من البلايا، ليناسب الفتن مع احتمال إرادة حقيقتها، قيل: إن أهل المشرق كانوا حينئذ أهل الكفر، فأخبر أن الفتنة تكون من ناحيتهم، كما أن وقعة الجمل وصفين وظهور الخوارج من أهل نجد والعراق وما والأها كانت من المشرق، وكذلك يكون خروج الدجال ويأجوج ومأجوج منها، وقيل: القرن فى الحيوان يضرب به المثل فيما لا يحمد من الأمور.»
مدینہ طیبہ کے باسیوں کا نجد، عراق اور اس کا نواحی علاقہ ہے۔ یہی اہل مدینہ کے مشرق میں واقع ہے۔ عراق میں زلزلوں اور فسادات سے مراد شاید وہ جنگیں ہیں جو لوگوں کے درمیان ہوئیں۔ یہی بات فتنوں کے حسب حال ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حقیقی زلزلے مراد ہوں۔ ایک قول یہ ہے کہ اہل مشرق اس وقت کافر تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اسی طرف سے کھڑے ہوں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ جنگ جمل اور صفین اور خوارج کے ظہور والے واقعات نجد و عراق اور اس کے نواحی علاقے کے لوگوں کے سبب ہی پیش آئے۔ یہ تمام مشرقی علاقے ہیں۔ اسی طرح دجال اور یاجوج و ماجوج کا ظہور بھی اسی علاقے سے ہو گا۔ اس حدیث میں مذکور سینگ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جانور کا سینگ بطور مثال قبیح امور کے لئے مستعمل ہے۔ [شرح الكرماني للبخاري: 168/24]

◈ شارح بخاری، علامہ عینی حنفی (762-859 ھ) امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب «باب قول النبى صلى الله عليه وسلم الفتنة من قبل المشرق» کے تحت لکھتے ہیں:
«مطابقته للترجمة فى قوله: وهناك الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان، وأشار بقوله: هناك نجد، ونجد من المشرق، قال الخطابي: نجد من جهة المشرق، ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهل المدينة، وأصل النجد ما ارتفع من الأرض، وهو خلاف الغور، فإنه ما انخفض منها، وتهامة كلها من الغور، ومكة من تهامة اليمن، والفتن تبدو من المشرق، ومن ناحيتها يخرج يأجوج ومأجوج والدجال، وقال كعب: بها الداء العضال، وهو الهلاك فى الدين، وقال المهلب: إنما ترك الدعاء لأهل المشرق، ليضعفوا عن الشر الذى هو موضوع فى جهتهم لاستيلاء الشيطان بالفتن.»
اس حدیث کی امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب سے مطابقت اس طرح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہاں زلزے اور فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کہہ کر نجد کی طرف اشارہ فرمایا اور نجد مشرق ہی میں واقع ہے۔ فتنوں کا آغاز مشرق ہی سے ہوتا ہے۔ اسی طرف سے یاجوج و ماجوج اور دجال کا ظہور ہو گا۔ کعب کہتے ہیں: مشرق میں مہلک بیماری ہو گی اور وہ بیماری دین سے بیزاری ہے۔ مہلب کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کے لئے دعا اس لیے نہیں کی کہ وہ اس شر سے باز آ جائیں جو شیطان کے فتنوں کی صورت میں ان کی سمت میں موجود ہے۔ [عمدة القاري فى شرح صحيح البخاري: 200/24]

◈ نیز لکھتے ہیں:
«وإنما أشار إلى المشرق لأن أهله يؤمئذ كانوا أهل كفر، فأخبر أن الفئة تكون من تلك الناحية، وكذلك كانت، وهى وقعة الجمل ووقعة صفين، ثم ظهور الخوارج فى أرض نجد والعراق وما ورائها من المشرق، وكانت الفتنة الكبرى التى كانت مفتاح فساد ذات البين قتل عثمان رضي الله تعالى عنه، وكان يحذر من ذلك ويعلم به قبل وقوعه، وذلك من دلالات نبوته .»
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ اس لیے فرمایا کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اس طرف سے سر اٹھائیں گے۔ بالکل ایسے ہی ہوا۔ جنگ جمل و صفین اور خوارج کا ظہور نجد و عراق اور اس کے نواحی علاقوں ہی میں ہوا تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ کی شہادت کی صورت میں سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا، وہ بھی اسی سمت سے آیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان فتنوں کے واقع ہونے سے قبل ہی اس سمت سے خبردار اور متنبہ فرماتے تھے۔ یہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک بہت بڑی نشانی تھی۔ [عمدة القاري فى شرح صحيح البخاري: 199/24]

◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) فرماتے ہیں:
«وقال غيره: كان أهل المشرق يومئذ أهل كفر، فأخبر صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك الناحية، فكان كما أخبر، وأول الفتن كان من قبل المشرق، فكان ذلك سببا للفرقة بين المسلمين، وذلك مما يحبه الشيطان ويفرح به، وكذلك البدع نشأت من تلك الجهة.»
علامہ خطابی کے علاوہ دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دے دی کہ فتنے اسی سمت سے پیدا ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کے عین مطابق سب سے پہلا فتنہ جو مسلمانوں میں دائمی اختلاف و افتراق کا باعث بنا، وہ مشرق ہی سے نمودار ہوا۔ اختلاف کو شیطان پسند کرتا ہے اور اس پر بہت خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح بدعات نے بھی اسی علاقے میں پرورش پائی۔ [فتح الباري: 47/13]
↰ تمام گمراہ اور ظالم فرقے، مثلاً رافضی، جہمی، قدریہ، وغیرہ مشرق کی پیداوار ہیں۔ تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ فتنہ دجال بھی یہیں سے ظاہر ہو گا۔

◈ شارح ترمذی، علامہ محمد عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (م: 1353ھ) اس حدیث کے الفاظ «يخرج قرن الشيطان» کی شرح میں فرماتے ہیں:
«يخرج قرن الشيطان، اي حزبه واهل وقته وزمانه واعوانه، ذكره السيوطي، وقيل: يحتمل أن يريد بالقرن قوة الشيطان، وما يستعين به على الإضلال.»
علامہ سیوطی کے بقول شیطان کے سینگ سے مراد اس کا گروہ، اس کا دور اور اس کے معاونین ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ سینگ سے مراد شیطان کی قوت اور اس کے گمراہ کن حربے ہیں۔ [تحفة الاحوذي: 381/4]

«رأس الكفر نحو المشرق» کا معنی بیان کرتے ہوئے ملا علی قاری حنفی ماتریدی (م: 1014 ھ) لکھتے ہیں:
«رأس الكفر، أى معظمه، ذكره السيوطي، والأظهر أن يقال: منشأة نحو المشرق.»
سیوطی نے ذکر کیا ہے کہ کفر کے سر سے مراد کفر کا بڑا حصہ ہے۔ زیادہ بہتر یہ معنی ہے کہ کفر کا سرچشمہ مشرق کی سمت ہے۔ [مرقاة المفاتيح فى شرح مشكاة المصابيح 8626 4039/9]

◈ نیز لکھتے ہیں:
«وقال النووي: المراد باختصاص المشرق به مزيد تسلط الشيطان على أهل المشرق، وكان ذلك فى عهده – صلى الله عليه وسلم – ويكون حين يخرج الدجال من المشرق، فإنه منشأ الفتن العظيمة ومثار الكفر.»
علامہ نووی فرماتے ہیں کہ فتنوں کو مشرق کے ساتھ خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل مشرق پر شیطان کا غلبہ زیادہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ایسا تھا اور دجال بھی مشرق ہی سے نمودار ہو گا۔ یوں مشرق بڑے بڑے فتنوں کا منبع اور کفر کا سرچشمہ ہے۔ [مرقاة المفاتيح فى شرح مشكاة المصابيح: 4037/9، ح: 6268]

فائدہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا:
«هل ترون ما أرى؟ قالوا: لا، قال: فإني لأرى الفتن تقع خلال بيوتكم كوقع القطر .»
جو میں دیکھ رہا ہوں، کیا تمہیں نظر آ رہا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: نہیں اللہ کے رسول!، فرمایا: بلاشبہ میں فتنوں کو تمہارے گھروں میں بارش کی طرح داخل ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ [صحيح البخاري: 1046/2، ح: 7060 صحيح مسلم: 389/1، ح 389/1]

اس حدیث نبوی اور مذکورہ بالا احادیث کے درمیان جمع وتطبیق کرتے ہوئے:
◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) فرما تے ہیں:
«وإنما اختصت المدينة بذلك، لأن قتل عثمان رضى الله عنه كان بها، ثم انتشرت الفتن فى البلاد بعد ذلك، فالقتال بالجمل وبصفين كان بسبب قتل عثمان، والقتال بالنهروان كان بسبب التحكيم بصفين، وكل قتال وقع فى ذلك العصر إنما تولد عن شيء من ذلك، أو عن شيء تولد عنه، ثم إن قتل عثمان كان أشد أسبابه الطعن على أمرائه، ثم عليه بتوليته لهم، وأول ما نشأ ذلك من العراق، وهى من جهة المشرق، فلا منافاة بين حديث الباب وبين الحديث الآتي أن الفتنة من قبل المشرق.»
اس بارے میں مدینہ منورہ کا خاص ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت یہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد تمام علاقوں میں فتنے پھیل گئے۔ جنگ جمل اور صفین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کا نتیجہ تھی، جبکہ (خوارج کے خلاف) جنگ نہروان کا سبب جنگ صفین میں تحکیم والا معاملہ بنا۔ اس دور میں جو بھی لڑائی ہوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا تعلق شہادت عثمان سے تھا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سب سے بڑا سبب آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں پر طعن اور خود آپ رضی اللہ عنہ پر ان گورنروں کی تقرری کے حوالے سے کی جانے والی تشنیع تھی۔ اس معاملے کا آغاز عراق ہی سے ہوا تھا۔ عراق (مدینہ منورہ کے) مشرق کی سمت میں واقع ہے۔ یوں اس حدیث اور آنے والی حدیث میں کوئی تعارض نہیں کہ فتنے کی سرزمین مشرق (عراق) ہی ہے۔ [فتح الباري: 13/13]

الحاصل: احادیث نبویہ میں مذکور فتنوں کی آماجگاہ نجد سے مراد عراق ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں واضح طور پر عراق کا نام موجود ہے۔ علمائے کرام اور فقہائے عظام کی تصریحات بھی یہی ہیں۔ حق وہی ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہو جائے۔ اس کے باوجود بعض لوگ ان صحیح احادیث کو چھپاتے ہوئے اہل حق پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث/صفحہ نمبر: 11   
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1037  
´نجد میں فتنے اور شیطان کا سینگ`
«. . . اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا وَفِي يَمَنِنَا، قَالَ: قَالُوا: وَفِي نَجْدِنَا، قَالَ: قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا وَفِي يَمَنِنَا، قَالَ: قَالُوا: وَفِي نَجْدِنَا، قَالَ: قَالَ: هُنَاكَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَبِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ . . .»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازل فرما۔ اس پر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد کے لیے بھی برکت کی دعا کیجئے لیکن آپ نے پھر وہی کہا اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما پھر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد میں؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہی سے طلوع ہو گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِسْقَاءِ: 1037]

فوائد و مسائل
↰ اس روایت میں اگرچہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں، لیکن یہ بھی حکماً مر فوع ہے۔ اس بارے میں:
◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) لکھتے ہیں:
«هكذا وقع فى هذه الروايات التى اتصلت لنا بصورة المؤقوف عن ابن عمر، قال: اللهم بارك . . .، لم يذكر النبى صلى الله عليه وسلم، وقال القابسي: سقط ذكر النبى صلى الله عليه وسلم من النسخة، ولا بد منه، لان مثلهٔ لايقال بالرأي»
جو روایات ہمارے پاس سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف صورت میں پہنچی ہیں، ان میں اسی طرح ہے کہ انہوں نے خود یہ دعا کی ہے، اس میں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا۔ قابسی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر صحیح بخاری کے نسخے سے گر گیا ہے۔ یہاں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر ضروری ہے، کیونکہ ایسی بات کوئی صحابی اپنے قیاس سے نہیں کہہ سکتا۔ [فتح الباري: 522/2]
------------------
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث/صفحہ نمبر: 9   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3953  
´شام اور یمن کی فضیلت کا بیان`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، لوگوں نے عرض کیا: اور ہمارے نجد میں، آپ نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، لوگوں نے عرض کیا: اور ہمارے نجد میں، آپ نے فرمایا: یہاں زلزلے اور فتنے ہیں، اور اسی سے شیطان کی سینگ نکلے گی، (یعنی شیطان کا لشکر اور اس کے مددگار نکلیں گے) ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3953]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
محقق شارحین حدیث نے قطعی دلائل اورتاریخی حقائق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس حدیث میں مذکور نجد سے مراد عراق ہے،
تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ دینی فتنے زیادہ تر عراق سے اٹھے،
لغت میں نجد اونچی زمین (سطح مرتفع) کو کہا جاتا ہے،
سعودیہ میں واقع نجد کو بھی اسی وجہ سے نجد کہا جاتا ہے،
اس اعتبار سے عراق پر بھی نجد کا لفظ صادق آتا ہے،
اور حسی ومعنوی دینی فتنوں کے عراق سے ظہورنے یہ ثابت کر دیا کہ آپﷺ کی مراد یہی عراق اورمضافات کا علاقہ تھا،
بدعتی فرقوں نے اس حدیث کا مصداق شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تحریک کو قرار دیا ہے،
(شَتَّانِ مَابَیْنَ الْیَزِیْدَیْن) سلف صالحین کے عقیدہ اور فہم شریعت کے مطابق چلائی گئی تحریک چاہے مذمومہ نجد ہی سے کیوں نہ ہو اس حدیث کا مصداق کیسے ہو سکتی ہے؟ اگرنجدی تحریک مراد ہو گی تو اصل اسلام ہی مراد ہو گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3953