صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
165. بَابُ إِذَا فَزِعُوا بِاللَّيْلِ:
باب: اگر رات کے وقت دشمن کا ڈر پیدا ہو (تو چاہئے کہ حاکم اس کی خبر لے)۔
حدیث نمبر: 3040
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ، قَالَ:" وَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً سَمِعُوا صَوْتًا، قَالَ: فَتَلَقَّاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَهُوَ مُتَقَلِّدٌ سَيْفَهُ، فَقَالَ: لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَجَدْتُهُ بَحْرًا يَعْنِي الْفَرَسَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد نے بیان کیا ‘ ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حسین ‘ سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ رات کے وقت اہل مدینہ گھبرا گئے تھے ‘ کیونکہ ایک آواز سنائی دی تھی۔ پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر جس کی پیٹھ ننگی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے تنہا اطراف مدینہ میں سب سے آگے تشریف لے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ کر صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملے تو تلوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں لٹک رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ‘ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تو اسے دریا کی طرح پایا۔ (تیز دوڑنے میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ گھوڑے کی طرف تھا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2772  
´عام اعلان جہاد کے وقت فوراً نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: آپ سب سے زیادہ خوبصورت، سخی اور بہادر تھے، ایک رات مدینہ والے گھبرا اٹھے، اور سب لوگ آواز کی جانب نکل پڑے تو راستے ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی، آپ ان سے پہلے اکیلے ہی آواز کی طرف چل پڑے تھے ۱؎، اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ننگی پیٹھ اور بغیر زین والے گھوڑے پر سوار تھے، اور اپنی گردن میں تلوار ٹکائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: لوگو! ڈر کی کوئی بات نہیں ہے، یہ کہہ کر آپ لوگوں کو واپس لوٹا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2772]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں میں سب سے ممتاز تھے۔

(2)
مسلمانوں کے لیے کوئی خطرہ محسوس ہوتو ہر مسلمان کو اس کے مقابلے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیار ہونا چاہیے۔

(3)
گھوڑے پر زین وغیرہ ڈالے بغیر سوار ہونا چاہیے جو عوام کے لیے ایک نمونہ بن سکے۔

(5)
کسی کی خوبی کے اعتراف میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
اس سے ساتھیوں اور ماتحتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے البتہ بے موقع تعریف جس سے فخر وتکبر کے جذبات پیدا ہونے کا خطرہ ہو اور خوشامد ممنوع ہے۔

(6)
رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ سے کثیر مواقع پر حاصل ہونے والی برکت رسول اللہﷺ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2772   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1685  
´گھبراہٹ کے وقت باہر نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو گئے اس گھوڑے کو «مندوب» کہا جاتا تھا: کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں تھی، اس گھوڑے کو ہم نے چال میں سمندر پایا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1685]
اردو حاشہ: 1 ؎:
یعنی بے انتہا تیز رفتار تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1685   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4988  
´الفاظ کے استعمال میں توسع کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک بار (دشمن کا) خوف ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے، (واپس آئے تو) فرمایا: ہم نے تو کوئی چیز نہیں دیکھی، یا ہم نے کوئی خوف نہیں دیکھا اور ہم نے اسے (گھوڑے کو) سمندر (سبک رفتار) پایا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4988]
فوائد ومسائل:
1) رسول اللہﷺ نے گھوڑے کی سبک رفتاری کو اس کے سمندر ہونے سے تشبیہ دی ہے۔
تو اس سے محدث رحمتہ اللہ کا استد لال یہ ہے کہ اگر اندھیرے کی نسبت سے عشاء کی نماز کو کبھی عتمہ یاسوتے کی نماز کہہ دیا جائے تو جائز ہے۔
2) صاحب ایمان کو جری اور بہادر ہوناچاہئےاور اپنے معاشرے میں عام اصلاحی کاموں میں سب سے آگے ہونا چاہئےجیسے رسول اللہﷺ تھے۔
3) کبھی کبھار عام استعمال کی چیزیں عاریتا لے لینےمیں کوئی قباحت نہیں ہےاور مسلمانوں کو اس سلسلے میں بخیل نہیں ہونا چاہئے لیکن عاریتا لینے والے کوبھی چاہئے کہ فراغت کے بعد اس چیز کو پوری ذمے داری کےساتھ واپس کردے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4988   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3040  
3040. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے، چنانچہ ایک دفعہ اہل مدینہ خوفزدہ ہوئے۔ جب انھوں نےایک ہولناک آواز سنی تو نبی کریم ﷺ حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے کی تنگی پیٹھ پر سوار ہوئے جبکہ آپ اپنے گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا: مت گھبراؤ، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے (سبک رفتاری میں) اس گھوڑے کو دریا کی طرح پایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3040]
حدیث حاشیہ:
بعض دشمن قبائل کی طرف سے مدینہ منورہ پر اچانک شب خونی کا خطرہ تھا‘ اور ایک دفعہ اندھیری رات میں کسی نامعلوم آواز سے ایسا شبہ ہوگیا تھا جس کی تحقیق کے لئے سب سے پہلے خود رسول کریمﷺ نکلے اور آپ مدینہ کے چاروں طرف دور دور تک پتہ لے کر واپس لوٹے اور مسلمانوں کی تسلی دلائی کہ کوئی خطرہ نہیں ہے‘ اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3040   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3040  
3040. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے، چنانچہ ایک دفعہ اہل مدینہ خوفزدہ ہوئے۔ جب انھوں نےایک ہولناک آواز سنی تو نبی کریم ﷺ حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے کی تنگی پیٹھ پر سوار ہوئے جبکہ آپ اپنے گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا: مت گھبراؤ، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے (سبک رفتاری میں) اس گھوڑے کو دریا کی طرح پایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3040]
حدیث حاشیہ:

مدینہ طیبہ میں جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو دشمن قبائل کی طرف سے اچانک شبخون کا خطرہ تھا۔
ایک دفعہ اندھیری رات میں ایک خوفناک آواز آنے پر اس قسم کا شبہ پیدا ہوا تو حالات کا جائزہ لینے کے لیے خود رسول اللہ ﷺ تن تنہا باہر تشریف لے گئے اور مدینہ طیبہ کے چاروں طرف دور دور تک جائزہ لے کر واپس لوٹے اور اہل مدینہ کو تسلی دی کہ کوئی خطرے والی بات نہیں ہے۔

امام بخاری ؒنے اس سے ثابت کیا ہے کہ اگر اس قسم کے ہنگامی حالات پیدا ہوں تو امیر لشکر یا اس کے قائم مقام کو خودد اس کا جائزہ لینا چاہیے اور لوگوں کو افواہ سازی کا موقع نہیں دینا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3040