صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
176. بَابُ هَلْ يُسْتَشْفَعُ إِلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ وَمُعَامَلَتِهِمْ:
باب: ذمیوں کی سفارش اور ان سے کیسا معاملہ کیا جائے۔
n
‏‏‏‏ (اس باب میں حدیث نہیں ہے)۔
حدیث نمبر: 3053
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ثُمَّ بَكَى حَتَّى خَضَبَ دَمْعُهُ الْحَصْبَاءَ، فَقَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ يَوْمَ الْخَمِيسِ، فَقَالَ: ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ، فَقَالُوا: هَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ وَأَوْصَى عِنْدَ مَوْتِهِ بِثَلَاثٍ أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ وَنَسِيتُ الثَّالِثَةَ وَقَالَ يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ: سَأَلْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، فَقَالَ: مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ وَالْيَمَامَةُ وَالْيَمَنُ، وَقَالَ يَعْقُوبُ: وَالْعَرْجُ أَوَّلُ تِهَامَةَ.
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان احول نے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جمعرات کے دن ‘ اور معلوم ہے جمعرات کا دن کیا ہے؟ پھر آپ اتنا روئے کہ کنکریاں تک بھیگ گئیں۔ آخر آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں شدت اسی جمعرات کے دن ہوئی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ قلم دوات لاؤ ‘ تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسی کتاب لکھوا جاؤں کہ تم (میرے بعد اس پر چلتے رہو تو) کبھی گمراہ نہ ہو سکو اس پر صحابہ میں اختلاف ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبی کے سامنے جھگڑنا مناسب نہیں ہے۔ صحابہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (بیماری کی شدت سے) ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا ‘ اب مجھے میری حالت پر چھوڑ دو ‘ میں جس حال میں اس وقت ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو تم کرانا چاہتے ہو۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت تین وصیتیں فرمائی تھیں۔ یہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے باہر کر دینا۔ دوسرے یہ کہ وفود سے ایسا ہی سلوک کرتے رہنا ‘ جیسے میں کرتا رہا (ان کی خاطرداری ضیافت وغیرہ) اور تیسری ہدایت میں بھول گیا۔ اور یعقوب بن محمد نے بیان کیا کہ میں نے مغیرہ بن عبدالرحمٰن سے جزیرہ عرب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہا مکہ ‘ مدینہ ‘ یمامہ اور یمن (کا نام جزیرہ عرب) ہے۔ اور یعقوب نے کہا کہ عرج سے تہامہ شروع ہوتا ہے (عرج مکہ اور مدینہ کے راستے میں ایک منزل کا نام ہے)۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 114  
´ (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں `
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، قَالَ: ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا، فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، قَالَ: قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ " . . . .»
. . . ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ` جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:: 114]

تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازراہ شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین تکلیف دیکھ کر یہ رائے دی تھی کہ ایسی تکلیف کے وقت آپ تحریر کی تکلیف کیوں فرماتے ہیں۔ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رائے پر سکوت فرمایا اور اس واقعہ کے بعد چار روز آپ زندہ رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس خیال کا اظہار نہیں فرمایا۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقد كان عمر افقه من ابن عباس حيث اكتفي بالقرآن على انه يحتمل ان يكون صلى الله عليه وسلم كان ظهرله حين هم بالكتاب انه مصلحة ثم ظهر له اواوحي اليه بعد ان المصلحة فى تركه ولو كان واجبا لم يتركه عليه الصلوٰة والسلام لاختلافهم لانه لم يترك التكليف بمخالفة من خالف وقد عاش بعدذلك اياما ولم يعاود امرهم بذلك .»
خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت زیادہ سمجھ دار تھے، انہوں نے قرآن کو کافی جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحتاً یہ ارادہ ظاہر فرمایا تھا مگر بعد میں اس کا چھوڑنا بہتر معلوم ہوا۔ اگر یہ حکم واجب ہوتا تو آپ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے بعد کئی روز زندہ رہے مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعادہ نہیں فرمایا۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث سات طریقوں سے مذکور ہوئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 114   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3053  
3053. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: جمعرات کا دن!کیا ہے جمعرات کا دن! اس کے بعد وہ اس قدر روئے کہ آنسوؤں سے زمین کی کنکریاں تر ہوگئیں۔ پھر کہنے لگے کہ جمعرات کے دن رسول اللہ ﷺ کی بیماری زیادہ ہو گئی تو آپ نے فرمایا: میرے پاس لکھنے کے لیے کچھ لاؤ تاکہ میں تمھیں ایک تحریر لکھوا دوں، تم اس کے بعد ہر گز گمراہ نہیں ہو گے۔ لیکن لوگوں نے اختلاف کیا اور نبی کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں۔ پھر لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ تو جدائی کی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: مجھے چھوڑ دو۔ کیونکہ میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی جانب تم مجھے بلا رہے ہو۔ اور آپ نے اپنی وفات کے وقت تین باتوں کی وصیت فرمائی: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور قاصدوں کو اسی طرح انعام دینا جس طرح میں دیتا تھا۔ راوی کہتا ہے کہ میں تیسری بات بھول گیا ہوں۔ مغیرہ بن عبد الرحمٰن نے جزیرہ عرب کے متعلق فرمایا کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3053]
حدیث حاشیہ:
ہجر کے معنی بیماری کی حالت میں ہذیانی کیفیت کا ہونا۔
آنحضرتﷺ بیماری اور غیر بیماری ہر حالت میں ہذیان سے محفوظ تھے۔
بعض روایتوں میں أهجر استفهموہ ہے۔
یعنی کیا پیغمبر صاحبﷺ کی باتیں ہذیان ہیں؟ آپ سے اچھی طرح پوچھ لو‘ سمجھ لو گویا یہ ان لوگوں کا کلام ہے جو کتاب لکھوانے کے حق میں تھے۔
بعضوں نے کہا یہ کلام حضرت عمر ؓ نے کہا تھا اور قرینہ بھی یہی ہے کیونکہ وہ کتاب لکھے جانے کے مخالف تھے۔
اس صورت میں ہجر کے معنی یہ ہوں گے کہ کیا آپ دنیا کو چھوڑنے والے ہیں؟ یعنی آپ کیا وفات پا جائیں گے۔
حضرت عمر ؓ کو گھبراہٹ اور رنج میں یہ خیال سما گیا تھا کہ آپ کو موت نہیں آ سکتی‘ اس حالت میں کتاب لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔
قسطلانی نے کہا‘ ظاہر یہ ہے کہ آپ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت لکھوانا چاہتے تھے‘ جیسے امام مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا‘ تو اپنے باپ اور بھائی کو بلا لے۔
میں ڈرتا ہوں کہیں کوئی اور خلافت کی آرزو کرے‘ اللہ اور مسلمان سوائے ابوبکر ؓ کے اور کسی کی خلافت نہیں مانتے۔
وصایائے نبوی میں ایک اہم وصیت یہ تھی کہ جزیرۂ عرب میں سے مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو نکال دیا جائے‘ عرب کا ملک طول میں عدن سے عراق تک اور عرض میں جدہ سے شام تک ہے۔
اور اس کو جزیرہ اس لئے فرمایا کہ تین طرف سے سمندر اس کو گھیرے ہوئے ہے۔
یہ وصیت حضرت عمر ؓ نے اپنی خلافت میں پوری کی۔
ملک عرب کو ہر چار جانب سے بحر ہند و بحر قلزم و بحر فارس و بحر حبشہ نے گھیرا ہوا ہے اس لئے اسے جزیرہ کہا گیا ہے۔
حدیث کے جملہ وَلاَ يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ پر علامہ قسطلانی ؒ لکھتے ہیں۔
الظاهر انہ من قوله صلی اللہ علیه وسلم لا من قول ابن عباس کما وقع التصریح به في کتاب العلم قال النبي صلی اللہ علیه وسلم قوموا عني ولا ینبغي عندي التنازع انتهی والظاهر أن هذا الكتاب الذي أراده إنما هو في النص على خلافة أبي بكر، لكنهم لما تنازعوا واشتدّ مرضه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عدل عن ذلك معوّلاً على ما أصله من استخلافه في الصلاة لتنازعهم واشتد مرضه صلی اللہ علیه وسلم ویدل علیہ ما وعند مسلم عن عائشة أنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قال:
"ادعي لي أبا بكر وأخاك أكتب كتابًا فإني أخاف أن يتمنى متمنٍّ ويقول قائل:
أنا أولى ويأبى الله والمؤمنون إلا أبا بكر"وعند البزار من حديثها لما اشتد وجعه عليه الصلاة والسلام قال:
"ائتوني بدواة وكتف أو قرطاس أكتب لأبي بكر كتابًا لا يختلف الناس عليه" ثم قال:
"معاذ الله أن يختلف الناس على أبي بكر" فهذا نص صريح علی تقدیم خلافة أبي بکر۔
(قسطلاني)
ظاہر ہے کہ الفاظ قوموا عنی الخ خود آنحضرتﷺ ہی کے فرمودہ ہیں یہ ابن عباس ؓ کے لفظ نہیں ہیں جیسا کہ کتاب العلم میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا‘ میرے پاس جھگڑنا مناسب نہیں لہٰذا یہاں سے کھڑے ہو جائو‘ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جس کتاب کے لکھنے کا آنحضرتﷺ نے ارادہ فرمایا تھا وہ کتاب خلافت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ لکھنا چاہتے تھے۔
پھر آپ نے لوگوں کے تنازع اور اپنی تکلیف مرض دیکھ کر اس ارادہ کو ترک فرما دیا اور اس لئے بھی کہ آپ اپنی حیات طیبہ ہی میں حضرت صدیق اکبر ؓ کو نماز میں امام بنا کر اپنی گدی ان کے حوالے فرما چکے تھے جیسا کہ مسلم شریف کی روایت عائشہ صدیقہ میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا‘ اپنے والد ابوبکر کو بلا لو اور اپنے بھائی کو بھی تاکہ میں ایک کتاب لکھوا دوں‘ میں ڈرتا ہوں کہ میرے بعد کوئی خلافت کی تمنا لے کر کھڑا ہو اور کہے کہ میں اس کا زیادہ مستحق ہوں‘ حالانکہ اللہ پاک نے اور جملہ ایمان والوں نے اس عظیم خدمت کے لئے ابوبکر ؓ ہی کو منتخب کر لیا ہے اور بزار میں انہی کی روایت سے یوں ہے کہ آپ نے شدت مرض میں فرمایا‘ میرے پاس دوات کاغذ وغیرہ لائو کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لئے دستاویز لکھوا دوں‘ تاکہ لوگ اس پر اختلاف نہ کریں۔
پھر فرمایا کہ اللہ کی پناہ اس سے کہ لوگ خلافت ابوبکر میں اختلاف کریں۔
پس حضرت صدیق اکبر ؓ کی خلافت پر یہ نص صریح ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3053   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3053  
3053. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: جمعرات کا دن!کیا ہے جمعرات کا دن! اس کے بعد وہ اس قدر روئے کہ آنسوؤں سے زمین کی کنکریاں تر ہوگئیں۔ پھر کہنے لگے کہ جمعرات کے دن رسول اللہ ﷺ کی بیماری زیادہ ہو گئی تو آپ نے فرمایا: میرے پاس لکھنے کے لیے کچھ لاؤ تاکہ میں تمھیں ایک تحریر لکھوا دوں، تم اس کے بعد ہر گز گمراہ نہیں ہو گے۔ لیکن لوگوں نے اختلاف کیا اور نبی کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں۔ پھر لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ تو جدائی کی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: مجھے چھوڑ دو۔ کیونکہ میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی جانب تم مجھے بلا رہے ہو۔ اور آپ نے اپنی وفات کے وقت تین باتوں کی وصیت فرمائی: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور قاصدوں کو اسی طرح انعام دینا جس طرح میں دیتا تھا۔ راوی کہتا ہے کہ میں تیسری بات بھول گیا ہوں۔ مغیرہ بن عبد الرحمٰن نے جزیرہ عرب کے متعلق فرمایا کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3053]
حدیث حاشیہ:

حضرت امام بخاری ؒنے ہر وہ عنوان کے لیے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث بیان کی ہے کیونکہ وفد کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی اس حدیث میں صراحت ہے، نیز اس سے معلوم ہوا کہ جب اہل ذمہ مشرکین جیسی حرکات پر اتر آئیں تو ان کے ساتھ مشرکین جیسا سلوک کرنا چاہیے۔

بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ابو بکر صدیق ﷺ کی خلافت کے متعلق کچھ تحریر کرانا چاہتے تھے کیونکہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا:
اپنے باپ اور بھائی کو بلاؤ مجھے اندیشہ ہے کہ کوئی اور اس خلافت کی تمنا کر بیٹھے کہ میں اس کا حق رکھتا ہوں۔
پھر فرمایا:
اللہ تعالیٰ اور دیگر اہل اسلام ابوبکرصدیق ؓ کے علاوہ کسی اور کو تسلیم نہیں کریں گے۔
(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6181(2387)

واضح رہے کہ مذکورہ حدیث "حدیث قرطاس"کے نام سے مشہور ہے۔
اس سے متعلق کچھ مباحث پہلے بیان ہو چکے ہیں۔
دیکھیے۔
حدیث 114کےفوائد۔
تیسری چیز جسے راوی بھول گیا تھا وہ درج ذیل اشیاء میں سے کوئی ایک ہو سکتی ہے۔
جیش اسامہ کی تیاری۔
قرآن کریم سے گہرا رشتہ اور اسے مضبوطی سے تھامنا۔
رسول اللہ ﷺ کی قبرمبارک کو اجتماع گاہ نہ بنایا جائے کہ اس کی عبادت شروع ہو جائے۔
وفات سے پہلے ان چیزوں کی وصیت کے متعلق بھی احادیث منقول ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3053