صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
192. بَابُ الْبِشَارَةِ فِي الْفُتُوحِ:
باب: فتح کی خوشخبری دینا۔
حدیث نمبر: 3076
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَيْسٌ، قَالَ: قَالَ لِي: جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ وَكَانَ بَيْتًا فِيهِ خَثْعَمُ يُسَمَّى كَعْبَةَ الْيَمَانِيَةِ فَانْطَلَقْتُ فِي خَمْسِينَ وَمِائَةٍ مِنْ أَحْمَسَ وَكَانُوا أَصْحَابَ خَيْلٍ، فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي لَا أَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ فَضَرَبَ فِي صَدْرِي حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ أَصَابِعِهِ فِي صَدْرِي، فَقَالَ: اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا، فَانْطَلَقَ إِلَيْهَا فَكَسَرَهَا وَحَرَّقَهَا فَأَرْسَلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَشِّرُهُ، فَقَالَ: رَسُولُ جَرِيرٍ لِرَسُولِ اللَّهِ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا جِئْتُكَ حَتَّى تَرَكْتُهَا كَأَنَّهَا جَمَلٌ أَجْرَبُ، فَبَارَكَ عَلَى خَيْلِ أَحْمَسَ وَرِجَالِهَا خَمْسَ مَرَّاتٍ، قَالَ مُسَدَّدٌ: بَيْتٌ فِي خَثْعَمَ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے اسماعیل بن ابوخالد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذی الخلصہ (یمن کے کعبے) کو تباہ کر کے مجھے کیوں خوش نہیں کرتے۔ یہ ذی الخلصہ (یمن کے قبیلہ) خثعم کا بت کدہ تھا (کعبے کے مقابل بنایا تھا) جسے کعبۃ الیمانیہ کہتے تھے۔ چنانچہ میں (اپنے قبیلہ) احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کو لے کر تیار ہو گیا۔ یہ سب اچھے شہسوار تھے۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں گھوڑے پر اچھی طرح سے جم نہیں پاتا تو آپ نے میرے سینے پر (دست مبارک) مارا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کا نشان اپنے سینے پر دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہ دعا دی «اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا ‏"‏‏.‏ فانطلق إليها فكسرها وحرقها» اے اللہ! اسے گھوڑے پر جما دے اور اسے صحیح راستہ دکھانے والا بنا دے اور خود اسے بھی راہ پایا ہوا کر دے۔ پھر جریر رضی اللہ عنہ مہم پر روانہ ہوئے اور ذی الخلصہ کو توڑ کر جلا دیا اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خوشخبری بھجوائی جریر رضی اللہ عنہ کے قاصد (حسین بن ربیعہ) نے (خدمت نبوی میں) حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! اس ذات پاک کی قسم جس نے آپ کو سچا پیغمبر بنا کر مبعوث فرمایا میں اس وقت تک آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا جب تک وہ بت کدہ جل کر ایسا (سیاہ) نہیں ہو گیا جیسا خارش والا بیمار اونٹ سیاہ ہوا کرتا ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ احمس کے سواروں اور ان کے پیدل جوانوں کے لیے پانچ مرتبہ برکت کی دعا فرمائی مسدد نے اس حدیث میں یوں کہا ذی الخلصہ خثعم قبیلے میں ایک گھر تھا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث159  
´جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پاس آنے سے نہیں روکا، اور جب بھی مجھے دیکھا میرے روبرو مسکرائے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں گھوڑے پر ٹک نہیں پاتا (گر جاتا ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پہ مارا اور دعا فرمائی: اے اللہ! اس کو ثابت رکھ اور اسے ہدایت کنندہ اور ہدایت یافتہ بنا دے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 159]
اردو حاشہ:
(1)
حضرت جریر رضی اللہ عنہ دراز قد، خوبصورت اور خوش شکل تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں اس امت کا یوسف کہا کرتے تھے۔

(2)
حاضر ہونے سے منع نہیں فرمایا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تشریف فرما ہوتے تھے یا کسی خاص مجلس میں رونق افروز ہوتے تھے اگر میں حاضری کی اجازت چاہتا تو مجھے ضرور اجازت مل جاتی تھی۔
کبھی حاضری سے منع نہیں کیا گیا، یعنی حضرت جریر رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی قرب حاصل تھا۔

(3)
ملاقات کے وقت مسکرانا خوشی کا مظہر ہے، جو محبت کی علامت ہے کیونکہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ملاقات سے خوشی ہوتی ہے، اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خلقی اور خندہ پیشانی کی عادتِ مبارکہ بھی معلوم ہوتی ہے۔

(4)
گھوڑ سواری ایک فن ہے جس کا حصول ایک مجاہد کے لیے بہت ضروری ہے، حضرت جریر رضی اللہ عنہ کو یہ شکایت تھی کہ گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ سکتے تھے، گرنے کا خطرہ محسوس کرتے تھے، اس لیے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی۔
کسی بزرگ ہستی کو اپنی کسی کمزوری سے آگاہ کرنا درست ہے تاکہ کوئی مناسب مشورہ حاصل ہو یا دعا ہی مل جائے۔

(5)
جب کسی بزرگ سے دعا کی درخواست کی جائے تو اسے چاہیے کہ دعا کر دے، انکار نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 159   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2772  
´جنگ میں فتح کی خوشخبری دینے والوں کو بھیجنے کا بیان۔`
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم مجھے ذو الخلصہ ۱؎ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے؟ ۲؎، یہ سن کر جریر رضی اللہ عنہ وہاں آئے اور اسے جلا دیا پھر انہوں نے قبیلہ احمس کے ایک آدمی کو جس کی کنیت ابوارطاۃ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ وہ آپ کو اس کی خوشخبری دیدے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2772]
فوائد ومسائل:

بنو خشعم نے اپنا ایک معبد بنا رکھا تھا۔
جسے وہ (الکعبة الیمانیة) کہتے تھے۔
اس گھرکا نام (خلصہ) اور بت کا نام (ذوالخلصہ) رکھا ہوا تھا۔
حضرت جریر فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور یہ مہم سر کی۔


کسی اہم واقعے کی خوشخبری بھیجنا جائز ہے۔
بشرط یہ کہ اس میں اپنے کردار کا لوگوں کو سنانا اور دکھلانا مقصود نہ ہو بلکہ اسلام کی سر بلندی کی اطلاع دینا مقصود ہویا مسلمانوں کا بڑھاوا اور ان کی حوصلہ افزائی مقصود ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2772   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3076  
3076. حضرت جریر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم ذی الخلصہ کو تباہ کرکے مجھے کیوں خوش نہیں کرتے ہو؟ یہ قبیلہ خشعم کا بت کدہ تھا جسے کعبہ یمانیہ کہا جاتا تھا، چنانچہ میں(قبیلے) احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کو لے کر تیار ہوگیا اور یہ سب بہترین شہسوار تھے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو بتایا کہ میں گھوڑے پر اچھی طرح جم کر بیٹھ نہیں سکتا تو آپ نے میرے سینے پر تھپکا دیا حتیٰ کہ میں نے آپ کی انگلیوں کا اثر اپنے سینے میں پایا۔ پھر آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اس کو گھوڑے پر جمادے۔ اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنادے۔ اس کے بعد جریر ؓ روانہ ہوئے اور اسے تباہ وبرباد کرکے آگ میں جلادیا۔ پھر نبی کریم ﷺ کو خوشخبری دینے کے لیے آپ کی طرف قاصد روانہ کیا۔ جریر ؓ کے قاصد نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3076]
حدیث حاشیہ:
خارش زدہ اونٹ بال وغیرہ جھڑ کر کالا اور دبلا پڑ جاتا ہے۔
اسی طرح ذی الخلصہ جل بھن کر چھت وغیرہ گر کر کالا پڑ گیا تھا۔
باب کا مطلب اس طرح نکلا کہ جریر ؓنے کام پورا کر کے آپ ﷺکو خوش خبری بھیجی۔
فساد اور بد امنی کے مراکز کو ختم کرنا‘ قیام امن کے لئے ضروری ہے۔
خواہ وہ مراکز مذہب ہی کے نام پر بنائے جائیں۔
جیسا کہ آنحضرتﷺ نے مدینہ میں ایک مسجد کو بھی گرا دیا جو مسجد ضرار کے نام سے مشہور ہوئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3076   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3076  
3076. حضرت جریر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم ذی الخلصہ کو تباہ کرکے مجھے کیوں خوش نہیں کرتے ہو؟ یہ قبیلہ خشعم کا بت کدہ تھا جسے کعبہ یمانیہ کہا جاتا تھا، چنانچہ میں(قبیلے) احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کو لے کر تیار ہوگیا اور یہ سب بہترین شہسوار تھے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو بتایا کہ میں گھوڑے پر اچھی طرح جم کر بیٹھ نہیں سکتا تو آپ نے میرے سینے پر تھپکا دیا حتیٰ کہ میں نے آپ کی انگلیوں کا اثر اپنے سینے میں پایا۔ پھر آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اس کو گھوڑے پر جمادے۔ اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنادے۔ اس کے بعد جریر ؓ روانہ ہوئے اور اسے تباہ وبرباد کرکے آگ میں جلادیا۔ پھر نبی کریم ﷺ کو خوشخبری دینے کے لیے آپ کی طرف قاصد روانہ کیا۔ جریر ؓ کے قاصد نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3076]
حدیث حاشیہ:

حضرت جرید بن عبداللہ ؓنے اس بت کدے کو جلا دیا۔
اس کے بعدانھوں نے رسول اللہ ﷺ کو خوشخبری بھیجی کہ ہم نے اس کا کام تمام کردیاہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ فساد اور بدامنی کے مراکز ختم کرنا قیام امن کے لیے بہت ضروری ہے،خواہ وہ مراکز مذہب کے نام پر ہی کیوں نہ بنائے گئے ہوں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کے نواح میں ایک مسجد کو بھی گرادینے کا حکم دیا تھا جومسجد ضرار کے نام سے مشہور ہوئی۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ صاحب اختیار حاکم بھی تھے،اس لیے آپ نے ایسی کاروائیاں کرنے کا حکم دیا۔

اس دور میں ہمیں ان واقعات کی آڑ میں مزارات اور بت کدوں کو گرانے کی اجازت نہیں کیونکہ اس سے فساد پھیلنے کااندیشہ ہے،تاہم اگرحکومت یہ کام کرے تو درست ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3076