وَكَانَ يُخْرِجُ رَأْسَهُ إِلَيَّ وَهُوَ مُعْتَكِفٌ فَأَغْسِلُهُ وَأَنَا حَائِضٌ".
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 77
´میاں بیوی کا اکٹھے نہا لینے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں`
«. . .عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ وَنَحْنُ جُنُبَانِ . . .»
”. . . عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے اور ہم دونوں جنبی ہوتے . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 77]
فوائد و مسائل:
➊ میاں بیوی شرعی لحاظ سے ایک دوسرے کا لباس ہیں اس لیے دونوں کے اکٹھے نہا لینے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
➋ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے برتن سے پانی لیا تو وہ عورت کا مستعمل ہو گیا۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی لیتے تو وہ ان کا مستعمل ہو جاتا۔ معلوم ہوا کہ بقیہ پانی کا استعمال جائز ہے خواہ عورت کا ہو یا مرد کا۔ بالخصوص جبکہ وہ دانا اور سمجھدار ہوں اور نامعقول طور پر پانی میں چھینٹے نہ ڈالتے ہوں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 77
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 238
´پانی کی اس مقدار کا بیان جو غسل کے لیے کافی ہوتا ہے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ هُوَ الْفَرَقُ مِنَ الْجَنَابَةِ . . .»
”. . . ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت ایک ایسے برتن سے کرتے تھے جس کا نام فرق ہے۔ . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب فِي مِقْدَارِ الْمَاءِ الَّذِي يُجْزِئُ فِي الْغُسْلِ: 238]
فوائد و مسائل:
➊ «فرق» تانبے کا ایک برتن ہوتا تھا جس سے چیزیں بھر کر ناپی جاتی تھیں۔ رطل کے حساب سے اس کا وزن سولہ رطل بنتا تھا۔ صحیح مسلم میں سفیان بن عیینہ سے اس کی کمیت کو تین صاع بیان کیا گیا ہے۔ راقم مترجم نے اپنے ہاں موجود مد سے اس کا حساب لگایا تو ہمارے رائج الوقت پیمانے سے اس کی کمیت نو لیٹر اور چھ ملی لیٹر بنتی ہے۔ سنن ابی داود حدیث [95] کے فوائد میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔
➋ کچھ احادیث میں ہے کہ پانی کی یہ مقدار صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال فرمائی اور کچھ میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں نے۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع یا سوا صاع سے غسل کر لیا کرتے تھے، تو ان میں تطبیق آسان ہے کہ یہ مختلف احوال اور مواقع کا بیان ہے۔ اس باب کی احادیث میں یہ بات خاص قابل ملاحظہ ہے کہ ”ایک برتن سے غسل فرمایا۔“ اور ”ہم غسل کر لیا کرتے تھے۔“ یعنی اس سے مزید پانی اور دوسرا برتن طلب نہیں کرتے تھے۔ بخلاف ہمارے عام معمولات کے جس میں اسراف ہوتا ہے۔ مذکورہ روایات میں بیان کی گئی مقدار اگرچہ حتمی نہیں ہے تاہم مستحب ضرور ہے کہ انسان اسی قدر پانی پر کفایت کرے اور اسراف سے احتراز کرے۔
ملحوظ:
امام احمد کا آخری مقولہ قابل حل ہے کہ ”صاع“ بھرنے کا پیمانہ ہے اور ”رطل“ وزن کرنے کا۔ ایک صاع میں پانچ رطل اور تہائی رطل غلہ یا کھجور وغیرہ آتی ہے، مگر سائل نے جب کہا کہ ”مدینے کی صیحانی کھجور بھاری ہوتی ہے۔“ تو فرمایا کہ یقیناًً عمدہ کھجور ہے۔ پھر آپ نے کہا کہ ”میں نہیں جانتا۔“ غالباً عبارت مختصر رہ گئی ہے اس لیے سمجھا گیا ہے کہ آپ کا مقصد یہ تھا کہ اس کا بھاری ہونا پانی کی کاشت کی وجہ سے ہوتا ہے یا کسی اور وجہ سے ہے؟ ”میں نہیں جانتا۔“ جملے کی دوسری توجیہ یہ بھی ہے جسے صاحب بذل المجھود نے ذکر کیا ہے کہ صیحانی کھجور سے صدقہ فطر ادا کریں تو وزن میں بھاری ہونے کے باعث (پانچ رطل اور تہائی رطل) صاع بھرنے سے کم رہ جاتی ہے، تو کیا اس وزن سے صدقہ درست ہو گا؟ آپ نے کہا: کھجور تو عمدہ ہے، مگر معلوم نہیں کہ صدقہ ادا ہوا یا نہیں۔ «والله اعلم»
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 238
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 72
´جنبی کے (غسل سے) بچے ہوئے پانی کا حکم۔`
عروہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرتی تھیں۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 72]
72۔ اردو حاشیہ: جنبی کے استعمال کے بعد بچا ہوا پانی قابل استعمال ہے، وہ پلید نہیں ہو گا، چاہے جنبی مرد ہو یا عورت، دونوں کے لیے حکم برابر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 72
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 410
´جس پانی سے غسل کیا جائے اس کے عدم تحدید کی دلیل۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن سے جس کا نام فرق تھا غسل کرتے تھے، اور میں اور آپ دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 410]
410۔ اردو حاشیہ:
➊ باب پر دلالت آخری ٹکڑے سے ہے۔ جب دو افراد اکٹھے ایک برتن سے غسل کر رہے ہوں تو ضروری نہیں کہ دونوں یکساں پانی استعمال کریں۔ لازماً کمی بیشی ہو گی۔ یہی باب کا عنوان ہے کہ غسل کے لیے پانی کی کوئی مقدار مقرر نہیں۔
➋ ”فَرَقُ“ تین صاع کا ہوتا ہے۔ اور ایک صاع تقریباً اڑھائی کلو کا ہوتا ہے۔ بعض احادیث میں غسل کے لیے ایک صاع کا بھی ذکر ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاری، حدیث251]
اور بعض میں ڈیڑھ صاع کا ذکر ملتا ہے۔ دیکھیے: [سنن النسائی، الطہارة، حدیث227]
ان احادیث میں باہم کوئی تعارض نہیں بلکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ غسل میں کم سے کم پانی استعمال کیا کرتے تھے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث232 اور اس کا فائدہ)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 410
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 411
´شوہر اور بیوی کے ایک برتن سے غسل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، ہم اس سے لپ (بھربھر کر) لیتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 411]
411۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں امام نسائی رحمہ اللہ کے دو استاد ہیں سوید بن نصر اور قتیبہ بن مالک۔ قتیبہ نے حدیث بیان کرتے وقت یوں کہا: «كَانَ يَغْتَسِلُ وَأَنَا» ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں اکٹھے غسل کیا کرتے تھے۔“ جبکہ سوید بن نصر نے یوں کہا: «كنت أغسل انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم» ”میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکٹھے غسل کیا کرتے تھے۔“ صرف لفظی تقدیم و تاخیر ہے، معنیٰ میں کوئی فرق نہیں۔ یہ محدثین کی دیانت اور حفظ کا کمال ہے کہ انہوں نے ا یسے معمولی لفظی فرق کو بھی نہ صرف یاد رکھا بلکہ اس کی وضاحت بھی فرما دی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 411
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 413
´شوہر اور بیوی کے ایک برتن سے غسل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے برتن کے سلسلے میں کھینچا تانی کر رہی ہوں، میں اور آپ دونوں اسی سے غسل کر رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 413]
413۔ اردو حاشیہ: وضاحت کے لیے دیکھیے، حدیث235 اور اس کا فائدہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 413
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 414
´شوہر اور بیوی کے ایک ساتھ غسل کرنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک برتن سے غسل کرتے تھے، میں چاہتی کہ آپ سے پہلے میں نہا لوں اور آپ چاہتے کہ مجھ سے پہلے آپ نہا لیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”تم میرے لیے چھوڑ دو“، اور میں کہتی: آپ میرے لیے چھوڑ دیجئیے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 414]
414۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں بھی امام نسائی رحمہ اللہ کے دو استاد ہیں، محمد بن بشار اور سوید بن نصر۔ دونوں کے الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہے۔ معنی میں کوئی فرق نہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس لفظی فرق کی بھی وضاحت فرما دی۔ مزید دیکھیے: حدیث240کے فوائدومسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 414
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 416
´غسل کے وقت عورت کے سر کے بال نہ کھولنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں اس برتن سے غسل کرتے تھے، تو میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہاں ایک ڈول رکھا ہوا تھا جو ایک صاع کے برابر تھا، یا اس سے کچھ کم، (اور وہ اسی کی طرف اشارہ کر رہی تھیں) (وہ کہہ رہی تھیں کہ) ہم دونوں غسل ایک ساتھ شروع کرتے، تو میں اپنے سر پر اپنے ہاتھوں سے تین مرتبہ پانی بہاتی، اور میں اپنا بال نہیں کھولتی تھی۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 416]
416۔ اردو حاشیہ: وضاحت کے لیے دیکھیے، حدیث242اور اس کے فوائدومسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 416
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 229
´کتنا پانی آدمی کے غسل کے لیے کافی ہو گا؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قدح (ٹب) سے غسل کرتے تھے، اور اس کا ۱؎ نام فرق ہے، اور میں اور آپ دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 229]
229۔ اردو حاشیہ:
حدیث میں «فَرَق» کا لفظ ہے۔ یہ ”حجازی صاع“ کے لحاظ سے تین صاع کا ہوتا ہے جس کا وزن تقریباً ساڑھے سات کلو کے برابر بنتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 229
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 232
´غسل کے لیے پانی کی تحدید نہ ہونے کا ذکر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دونوں) ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، اور وہ فرق کے بقدر ہوتا تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 232]
232۔ اردو حاشیہ:
استدلال لفظ ”تقریباً“ سے ہے، یعنی غسل کے لیے کوئی خاص مقدار معین نہیں، کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ پیچھے گزر چکا ہے کہ ایک «فرق» تقریباً تین صاع کا ہوتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 232
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 233
´شوہر اور بیوی کے ایک برتن سے غسل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں (دونوں) ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، ہم دونوں اس سے لپ سے ایک ساتھ پانی لیتے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 233]
233۔ اردو حاشیہ:
➊ میاں بیوی کے اکٹھے نہانے پر کوئی عقلی اعتراض ہے نہ شرعی، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ غسل کرتے وقت پانی احتیاط سے استعمال کیا جائے اور اسے آلودہ ہونے سے بچایا جائے۔
➋ یہ بھی ثابت ہوا کہ جنبی کے ہاتھ ڈالنے سے پانی پلید نہیں ہو گا، نیز غسل جنابت سے بچے ہوئے پانی سے مزید غسل ہو سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 233
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 235
´شوہر اور بیوی کے ایک برتن سے غسل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے خود کو دیکھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (پانی کے) برتن کے سلسلہ میں جھگڑ رہی ہوں (میں اپنی طرف برتن کھینچ رہی ہوں اور آپ اپنی طرف کھینچ رہے ہیں) میں اور آپ (ہم دونوں) اسی سے غسل کرتے تھے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 235]
235۔ اردو حاشیہ:
” اپنی اپنی طرف کھینچتے تھے۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی آسانی سے اور قریب سے لیا جا سکے یا خوش طبعی کے طور پر۔ میاں بیوی میں ایسی کھینچا تانی ان کی باہمی بےتکلفی اور پیار محبت کی مظہر ہے، جو نہ شرعاً قبیح ہے، نہ عقلاً اور نہ عرفاً، بلکہ محمود اور پسندیدہ ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 235
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 240
´جنبی کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، (کبھی) آپ مجھ سے سبقت کر جاتے، اور کبھی میں آپ سے سبقت کر جاتی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”میرے لیے چھوڑ دو“، اور میں کہتی: میرے لیے چھوڑ دیجئیے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 240]
240۔ اردو حاشیہ:
➊ میاں بیوی اکٹھے غسل کر رہے ہوں تو اس صورت حال کا پیدا ہونا کوئی قابل تعجب یا قابل اعتراض بات نہیں۔ خصوصاً جب کہ میاں بیوی کے درمیان خوش طبعی شریعت میں بھی قابل تعریف ہے۔
➋ اس روایت سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ آپ دونوں یکے بعد دیگرے پانی لیتے تھے جس نے بعد میں پانی لیا، اس نے جنبی کے بچے ہوئے پانی سے غسل کیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 240
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:301
301. اور آپ ﷺ اپنا سر مبارک میری جانب نکال دیتے جب کہ آپ اعتکاف میں ہوتے اور میں بحالت حیض آپ کے سر مبارک کو دھو دیتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:301]
حدیث حاشیہ: 1۔
امام بخاری ؒ نے مباشرت حائض کے احکام بیان کرنے کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے، اس سے مراد حائضہ کے ساتھ سونا یا اس سے بوس و کنار کرنا ہے، اس سے مراد جماع نہیں، کیونکہ وہ تو حائضہ سے کسی صورت میں جائز نہیں۔
اگرچہ ہمارے ہاں اور محاورے میں لفظ مباشرت جماع کے لیے بولا جاتا ہے، اس لیے اس کا لفظ اردو زبان میں مباشرت سے ترجمہ کرنا غلط ہے۔
بعض عاقبت نااندیش مستشرقین نے اس باب میں آنے والی احادیث کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی کو خاکم بدہن
”عورتوں کا رسیا
“ ثابت کیا ہے جو حالت حیض میں بھی ان سے پرہیز نہ کرتے تھے، ان احادیث سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ انتہائی نفاست پسند تھے۔
ایک عام آدمی کو بھی بحالت حیض میں عورت کے پاس جانے سے گھن آتی ہے، چہ جائیکہ رسول اللہ ﷺ کی طرف اس قسم کا فعل منسوب کیا جائے۔
﴿ سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ ﴾ قارئین کرام کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ ضب
(سانڈھے) کو قسام ازل
(اللہ تعالیٰ) نے انتہائی شہوانی جذبات سے نوازا ہے، قابل اعتماد عینی گواہوں کا بیان ہے کہ اس کے دو ذکر ہوتے ہیں، لوگ اسے کھانے اور اس کی چربی کو طلا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حلال ہونے کے باوجود اسے ناپسند فرمایا۔
آپ کے دسترخوان پر دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے کھایا، لیکن آپ نے تناول نہیں فرمایا۔
غالباً اس کی یہی وجہ تھی کہ لوگ اس بات کا چرچا کریں گے کہ آپ کے عقد میں نو بیویاں ہیں، اس لیے ضب
(سانڈھے) کو استعمال کرتے ہیں۔
آپ نے اس سے کراہت کا اظہار کیا تاکہ کسی طرف سے بھی آپ کی شخصیت پر حرف نہ آئے۔
واللہ أعلم 2۔
امام ثوری ؒ امام احمد ؒ امام اسحاق ؒ اور دیگر کئی آئمہ کے نزدیک دوران حیض میں عورت سے صرف جماع حرام ہے اور فرج
(حیض والی جگہ) کے سوا پورے جسم سے تمتع کرنا جائز ہے۔
دلائل کے اعتبار سے یہی رائے راجح معلوم ہوتی ہے، اس کی تائید سنن ابو داود کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ نبی ﷺ اگراپنی اہلیہ سے خواہش کرتے اور وہ حیض سے ہوتی تو اس کی شرمگاہ پر کپڑا ڈال دیتے۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 272) ابتدائی دنوں اور بعد کے ایام کی تفریق والی وہ روایت جسے ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں ابن ماجہ کے حوالے سے نقل کیا ہے، وہ معجم طبرانی میں ہے، لیکن ضعیف ہے۔
(السلسلة الضعیفة: 2839) یادرہے کہ جواز اسی صورت میں ہے جب انسان اپنے آپ پر کنٹرول رکھتا ہو، ورنہ ایام حیض میں مرد عورت سے الگ رہے۔
3۔
رسول اللہ ﷺ اپنی خواہشات پر انتہائی قابو یافتہ تھے۔
اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ اپنے جذبات پر پوری طرح قابو یافتہ تھے اور نا ممکن تھا کہ ازار کے بغیر بھی اگر وہ کسی بیوی کے ساتھ استراحت کرنا چاہیں تو ان سے کوئی خلاف شرع فعل صادر ہو سکے، مگر اس قدر کنٹرول کے باوجود آپ پہلے ازار پہنانے کا اہتمام کرتے، پھر اس کے ساتھ محو استراحت ہوتے۔
ازار کے بعد بھی وفور جذبات میں بہہ جانے کا اندیشہ باقی رہتا ہے، اس لیے ازار استعمال کرانے کے باوجود احتیاط کی ضرورت ہے، لہذا ایام حیض میں بیوی کے ساتھ لیٹنے والے کے بارے میں تفصیل ہے کہ اگر اسے اپنی ذات پر پورا اعتماد ہو اور کسی غلط روی کا اندیشہ نہ ہو تو اس کی اجازت دی جائے گی، بصورت دیگر اسے منع کر دیا جائے گا۔
4۔
حدیث عائشہ ؓ
(رقم 302) کو ابو اسحاق شیبانی سےبیان کرنے میں خالد بن عبد اللہ الواسطی اور جریر بن عبدالحمید نے علی بن مسہر کی متابعت کی ہے، خالد کی متابعت کو ابو القاسم التنوخی نے اپنے فوائد میں موصولاً بیان کیا ہے، جبکہ جریر کی متابعت کو ابو داؤد نے اپنی سنن اور امام حاکم نے اپنی مستدرک میں موصولاً بیان کیا ہے۔
منصور بن ابی الاسود نے بھی شیبانی سے اس روایت کو بیان کیا ہے جسے ابو عوانہ نے اپنی مسند میں موصولاًبیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 5261) 5۔
دور حاضرکے منکرین حدیث کی کوشش ہے کہ قرآن و حدیث میں تضاد اورٹکراؤ پیدا کر کے انکار حدیث کا راستہ ہموار کیا جائے۔
اس طرح جب حدیث کا قرآن فہمی میں کوئی کردار نہیں ہوگا تو قرآن کریم کی من مانی تاویلات کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی، اس حدیث کے متعلق بھی انھوں نے کہا کہ اس میں بحالت حیض بیوی سے مباشرت کرنے کا ذکر ہے، جبکہ قرآن کریم میں اس کے متعلق حکم امتناعی ہے، لہٰذا یہ حدیث قرآن کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل تسلیم ہے۔
قارئین کرام کو خبردار کرنے کے لیے ہم نے ان کا ذکر کردیا ہے۔
حدیث اپنے مفہوم کے اعتبار سے واضح ہے کہ مباشرت سے مراد جماع نہیں، بلکہ اپنی بیوی کے ساتھ لیٹنا اور اس سے بوس وکنار کرنا ہے، اگر قرآن و حدیث میں بظاہر تعارض نظر آئے تو انکار کے بجائے اس کی توجیہ کرنی چاہیے۔
قرآن کریم کی متعدد آیات میں بظاہر تعارض نظر آتا ہے، لیکن مفسرین اس کی توجیہ کرتے ہیں، یہ نہیں ہوتا کہ جہاں معمولی سا تعارض نظر آیا اس کا سرے سے انکار کردیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 301