صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
196. بَابُ اسْتِقْبَالِ الْغُزَاةِ:
باب: غازیوں کے استقبال کو جانا (جب وہ جہاد سے لوٹ کر آئیں)۔
حدیث نمبر: 3082
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ وَحُمَيْدُ بْنُ الْأَسْوَدِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: ابْنُ الزُّبَيْرِ لِابْنِ جَعْفَرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ تَذْكُرُ إِذْ تَلَقَّيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَنْتَ وَابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: نَعَمْ، فَحَمَلَنَا وَتَرَكَكَ.
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یزید بن زریع اور حمید بن الاسود نے بیان کیا ‘ ان سے حبیب بن شہید نے اور ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے کہا ‘ تمہیں وہ قصہ یاد ہے جب میں اور تم اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تینوں آگے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے واپس آ رہے تھے) عبداللہ بن جعفر نے کہا ‘ ہاں یاد ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے ساتھ سوار کر لیا تھا ‘ اور تمہیں چھوڑ دیا تھا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3082  
3082. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓسے روایت ہے، انھوں نے ابن جعفر ؓ سے کہا: کیا تمھیں یاد ہے کہ جب ہم، تم اور حضرت ابن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ کے استقبال کو گئے تھے؟ انھوں نے کہا: ہاں (خوب یاد ہے) آپ ﷺ نے ہمیں تو اپنے ساتھ سوار کرلیا تھا اور آپ کو چھوڑ دیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3082]
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
ظاهرہ أن القائل فحملنا هو عبداللہ بن جعفر وأن المتروك هو ابن الزبیر الخ یعنی ظاہر ہے کہ سوار ہونے والے حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ ہیں اور متروک حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ ہیں۔
مگر مسلم میں اس کے برعکس مذکور ہے:
وقد نبه عیاض علی أن الذي وقع في البخاري هو الصواب یعنی قاضی عیاض ؒ نے تنبیہ کی ہے کہ بخاری کا بیان زیادہ صحیح ہے۔
اس سے غازیوں کا آگے بڑھ کر استقبال کرنا ثابت ہوا۔
نیز اس سے یتیموں کا زیادہ خیال رکھنا بھی ثابت ہوا۔
کیونکہ حضرت عبداللہ کے والد جعفر بن ابی طالب ؓ انتقال کر چکے تھے۔
آنحضرتﷺ نے ان کے یتیم بچے عبداللہ ؓ کا دل خوش کرنے کے لئے سواری پر ان کومقدم کیا‘ اگر کسی صحابی پر آنحضرتﷺ نے کبھی کسی امر میں نظر عنایت فرمائی تو اس پر اس صحابی کے فخر کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا‘ کسی بزرگ کی طرف سے کسی پر نظر عنایت ہو تو وہ آج بھی بطور فخر اسے بیان کر سکتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3082   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3082  
3082. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓسے روایت ہے، انھوں نے ابن جعفر ؓ سے کہا: کیا تمھیں یاد ہے کہ جب ہم، تم اور حضرت ابن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ کے استقبال کو گئے تھے؟ انھوں نے کہا: ہاں (خوب یاد ہے) آپ ﷺ نے ہمیں تو اپنے ساتھ سوار کرلیا تھا اور آپ کو چھوڑ دیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3082]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاد،حج یا دیگر کسی سفر سے واپس آنے والے کا خوشی اورسرور سے استقبال کرنا مستحسن ہے۔

صحیح مسلم کی ایک رویت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن زبیر ؓ اور عبداللہ بن عباس ؓ کواپنے ساتھ بٹھا لیا اور عبداللہ بن جعفر ؓ کو چھوڑدیا تھا۔
(صحیح البخاري، العمرة، حدیث: 1798)
یہ راوی کا وہم ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث راجح ہے،نیز ایک روایت کے مطابق ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ تشریف لائے تو خاندان عبدالمطلب کے بچوں نے آپ کا استقبال کیا۔
آپ نے ایک کو اپنے آگے اور دوسرے کو اپنے پیچھے بٹھالیا۔
(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6266(2427)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ بن جعفر ؓ کو آپ نے سوارکیا تھا۔
ابن جعفر،خاندان عبدالمطلب سے ہیں۔
(فتح الباري: 230/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3082