صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
197. بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا رَجَعَ مِنَ الْغَزْوِ:
باب: جہاد سے واپس ہوتے ہوئے کیا کہے۔
حدیث نمبر: 3086
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ أَقْبَلَ هُوَ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَفِيَّةُ مُرْدِفَهَا عَلَى رَاحِلَتِهِ فَلَمَّا كَانُوا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَثَرَتِ النَّاقَةُ، فَصُرِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمَرْأَةُ وَإِنَّ أَبَا طَلْحَةَ، قَالَ: أَحْسِبُ، قَالَ: اقْتَحَمَ عَنْ بَعِيرِهِ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا نَبِيَّ اللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ هَلْ أَصَابَكَ مِنْ شَيْءٍ، قَالَ: لَا وَلَكِنْ عَلَيْكَ بِالْمَرْأَةِ فَأَلْقَى أَبُو طَلْحَةَ ثَوْبَهُ عَلَى وَجْهِهِ فَقَصَدَ قَصْدَهَا، فَأَلْقَى ثَوْبَهُ عَلَيْهَا فَقَامَتِ الْمَرْأَةُ فَشَدَّ لَهُمَا عَلَى رَاحِلَتِهِمَا فَرَكِبَا فَسَارُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِظَهْرِ الْمَدِينَةِ أَوْ، قَالَ: أَشْرَفُوا عَلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُهَا حَتَّى دَخَلَ الْمَدِينَةَ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر پیچھے بٹھا رکھا تھا۔ راستے میں اتفاق سے آپ کی اونٹنی پھسل گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گر گئے اور ام المؤمنین بھی گر گئیں۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے یوں کہا کہ میں سمجھتا ہوں ‘ انہوں نے اپنے آپ کو اونٹ سے گرا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے کوئی چوٹ تو آپ کو نہیں آئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں لیکن تم عورت کی خبر لو۔ چنانچہ انہوں نے ایک کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لیا ‘ پھر ام المؤمنین کی طرف بڑھے اور وہی کپڑا ان پر ڈال دیا۔ اب ام المؤمنین کھڑی ہو گئیں۔ پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ دونوں کے لیے اونٹنی کو مضبوط کیا۔ تو آپ سوار ہوئے اور سفر شروع کیا۔ جب مدینہ منورہ کے سامنے پہنچ گئے یا راوی نے یہ کہا کہ جب مدینہ دکھائی دینے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی «آيبون تائبون عابدون لربنا حامدون‏"‏‏.‏» ہم اللہ کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ توبہ کرنے والے ‘ اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی تعریف کرنے والے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا برابر پڑھتے رہے ‘ یہاں تک کی مدینہ میں داخل ہو گئے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3086  
3086. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت ابو طلحہ ؓ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر سے واپس آئے۔ اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ حضرت صفیہ ؓ سوار تھیں، جنھیں آپ نے اپنے پیچھے اونٹنی پر بٹھایا ہوا تھا۔ راستے میں اونٹنی کا پاؤں پھسلا تو نبی کریم ﷺ اور حضرت صفیہ ؓ دونوں گر پڑے۔ حضرت انس ؓ کا کہنا ہے کہ میرے خیال کے مطابق وہ (حضرت ابو طلحہ ؓ) اپنے اونٹ ہی سے کود پڑے اور (آپ ﷺ کے پاس آکر) عرض کیا: اللہ کے نبی کریم ﷺ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے، کیا آپ کو چوٹ تو نہیں آئی؟ آپ نے فرمایا: نہیں، تم اس عورت (صفیہ) کا پتہ کرو۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ ؓاپنے چہرے پر کپڑا ڈال کر حضرت صفیہ ؓ کی طرف چل دیے۔ پھر انھوں نے وہ کپڑا ان پر ڈال دیا۔ حضرت صفیہ ؓ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انھوں نے سواری درست کی تو دونوں اس پر سوار ہوگئے۔ وہ راستے میں چلتے رہے حتیٰ کہ وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3086]
حدیث حاشیہ:
یہ بھی جنگ خیبر ہی سے متعلق ہے۔
ہر دو احادیث میں الفاظ مختلفہ کے ساتھ ایک ہی واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
یہ بھی ہر دو میں متفق ہے کہ آنحضرتﷺ کے ساتھ حضرت صفیہ تھیں‘ غزوہ بنو لحیان سے اس واقعہ کا جوڑ نہیں ہے‘ جو ۶ھ میں ہوا اور حضرت صفیہ ؓ کا اسلام اور حرم میں داخلہ ۷ھ سے متعلق ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3086   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3086  
3086. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت ابو طلحہ ؓ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر سے واپس آئے۔ اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ حضرت صفیہ ؓ سوار تھیں، جنھیں آپ نے اپنے پیچھے اونٹنی پر بٹھایا ہوا تھا۔ راستے میں اونٹنی کا پاؤں پھسلا تو نبی کریم ﷺ اور حضرت صفیہ ؓ دونوں گر پڑے۔ حضرت انس ؓ کا کہنا ہے کہ میرے خیال کے مطابق وہ (حضرت ابو طلحہ ؓ) اپنے اونٹ ہی سے کود پڑے اور (آپ ﷺ کے پاس آکر) عرض کیا: اللہ کے نبی کریم ﷺ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے، کیا آپ کو چوٹ تو نہیں آئی؟ آپ نے فرمایا: نہیں، تم اس عورت (صفیہ) کا پتہ کرو۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ ؓاپنے چہرے پر کپڑا ڈال کر حضرت صفیہ ؓ کی طرف چل دیے۔ پھر انھوں نے وہ کپڑا ان پر ڈال دیا۔ حضرت صفیہ ؓ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انھوں نے سواری درست کی تو دونوں اس پر سوار ہوگئے۔ وہ راستے میں چلتے رہے حتیٰ کہ وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3086]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابوطلحہ ؓنے اپنے منہ پر کپڑا اس لیے ڈالا کہ حضرت صفیہ ؓ پر نظر نہ پڑے۔
سبحان اللہ! صحابہ کرام ؓ میں کس قدر شرم وحیاتھی۔
لیکن ہمارے ہاں اس قدر بے حیائی کادور دورہ ہے کہ بازار میں عورتوں مردوں کو گھور، گھورکردیکھتی ہیں اور انھیں دعوت نظارہ دیتی ہیں۔
العیاذ باللہ۔

اس حدیث کے پیش نظر اب بھی سنت یہی ہے کہ کسی سفر سے بخیریت واپسی پر اس دعا کو پڑھا جائے، وہ سفر حج کا ہو یاعمرے کایا کسی عزیز واقارب سے ملاقات کا۔
الغرض ہر قسم کے سفر سے واپسی پر مذکورہ دعا پڑھنا سنت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3086