صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ -- کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
4. بَابُ مَا جَاءَ فِي بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا نُسِبَ مِنَ الْبُيُوتِ إِلَيْهِنَّ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے گھروں اور ان گھروں کا انہی کی طرف منسوب کرنے کا بیان۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ} وَ{لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ}.
‏‏‏‏ اور اللہ پاک نے (سورۃ الاحزاب میں) فرمایا «وقرن في بيوتكن‏» تم لوگ (ازواج مطہرات) اپنے گھروں ہی میں عزت سے رہا کرو۔ اور (اسی سورۃ میں فرمایا کہ) «لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم‏» نبی کے گھر میں اس وقت تک نہ داخل ہو ‘ جب تک تمہیں اجازت نہ مل جائے۔
حدیث نمبر: 3099
حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى وَمُحَمَّدٌ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا : مَعْمَرٌ وَيُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:" لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي فَأَذِنَّ لَهُ".
ہم سے حبان بن موسیٰ اور محمد بن مقاتل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا ہم کو معمر اور یونس نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ (مرض الوفات میں) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض بہت بڑھ گیا ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بیویوں سے اس کی اجازت چاہی کہ مرض کے دن آپ میرے گھر میں گزاریں۔ لہٰذا اس کی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گئی تھی۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3099  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے گھروں اور ان گھروں کا انہی کی طرف منسوب کرنے کا بیان`
«. . . وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ} وَ {لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ} . . . .»
. . . ‏‏‏‏ اور اللہ پاک نے (سورۃ الاحزاب میں) فرمایا «وقرن في بيوتكن‏» تم لوگ (ازواج مطہرات) اپنے گھروں ہی میں عزت سے رہا کرو۔ اور (اسی سورۃ میں فرمایا کہ) «لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم‏» نبی کے گھر میں اس وقت تک نہ داخل ہو ‘ جب تک تمہیں اجازت نہ مل جائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ: Q3099]

«. . . أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:" لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي فَأَذِنَّ لَهُ . . .»
. . . ‏‏‏‏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ (مرض الوفات میں) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض بہت بڑھ گیا ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بیویوں سے اس کی اجازت چاہی کہ مرض کے دن آپ میرے گھر میں گزاریں۔ لہٰذا اس کی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گئی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ: 3099]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3099 باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِي بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا نُسِبَ مِنَ الْبُيُوتِ إِلَيْهِنَّ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ باب میں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں جس طور پر اور جن جن ازواج کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابیات و حجرات عطا کئے وہ آپ کی وفات کے بعد بھی اسی حالت میں رہے اور ان میں کسی قسم کا کوئی ورثہ تقسیم نہ ہوا۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه دخول الترجمة فى الفقه، أن سكناتهن فى بيوت النبى صلى الله عليه وسلم من الخصائص كما استحققن النفقة، و السر فى ذالك حبسهن عليه أبدا.» [المتواري، ص: 186]
یعنی ترجمۃ الباب سے یہ بات ثابت کرنی مقصود ہے کہ امہات المومنین رضی اللہ عنہن اپنے گھروں میں رہنے کی مستحق ہیں جیسے کہ آپ کے نفقہ وغیرہ، اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں داخل ہے (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد امہات المومنین رضی اللہ عنہن اپنی اپنی رہائش گاہ میں رہیں)۔
التاودی بن سودۃ فرماتے ہیں:
«وقال الطبري: قيل كان النبى صلى الله عليه وسلم ملك كل من أزواجه البيت الذى كانت فيه فسكن بعده ذالك التمليك، و قيل: أنما لم ينازعن فيهن» [حاشية التاودي بن سودة، ج 3، ص 271]
یعنی یہ کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام ازواج کی ملکیت میں وہ مسکن دیئے تھے جس میں وہ رہائش پذیر تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی اسی ملکیت کے ساتھ انہوں نے رہائش رکھی، تاکہ ان میں کسی قسم کا کوئی تنازعہ نہ ہو۔
ترجمۃ الباب اور قرآن مجید کی آیات میں مناسبت ظاہر ہے۔ پہلی آیت میں گھروں کی نسبت امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی طرف کی گئی اور دوسری آیت میں گھروں کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔ یعنی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت فرمارہے ہیں کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نفقہ کا خرچ تھا بعین اسی طرح سے آپ کی وفات کے بعد امہات المومنین رضی اللہ عنہن کا اپنے گھروں پر بھی حق تھا، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ امہات المومنین رضی اللہ عنہن کو مسلمانوں کی مائیں قرار دیا گیا ہے اور کسی اور سے ان کا نکاح قیامت تک کے لئے حرام کر دیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب کے بعد آیات اور اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی احادیث کا ذکر فرمایا جن سے آپ یہ استدلال فرما رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کو ان کی ازواج کے ساتھ منسلک فرمایا گیا ہے۔
پہلی حدیث امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جس میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ تمام بیویوں سے اجازت لی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں دن گزار دیں، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے وقت کا واقعہ ہے اس حدیث میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے گھر کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔
امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة لما ترجم له هنا فى قولها: فى بيتي . . . . .» [ارشاد الساري، ج 5، ص: 467]
باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میرے گھر میں . . . . .۔
دوسری حدیث ذکر فرمائی وہ بھی امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں وفات پائی۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمانا: «توفي النبى صلى الله عليه وسلم فى بيتي» کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں وفات پائی۔ یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔ [ارشاد الساري، ج 5، ص: 478]
تیسری حدیث جو کہ امی صفیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ «عند باب ام سلمة زوج النبى صلى الله عليه وسلم» کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے کے قریب پہنچے، امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کا مطلب یوں واضح کیا کہ دروازے کو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا دروازہ کہا۔
چوتھی حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، اس میں الفاظ یوں ہیں: «ارتقيت فوق بيت حفصة» کہ میں ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے اوپر چڑھا۔
پانچویں حدیث ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جس میں یہ الفاظ موجود ہیں: «لم تخرج من حجرتها» دھوپ ابھی ان کے حجرے میں باقی رہتی، یہاں بھی امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے (گھر) کا ذکر آیا، یہیں سے ترجمۃ الباب کے ساتھ مناسبت قائم ہے۔
چھٹی حدیث سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں ہے: «فأشار نحو مسكن عائشة» کے الفاظ ہیں جس میں مسکن کا لفظ ہے جس سے بایں طور پر ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت قائم ہو رہی ہے۔
ان تمام احادیث میں «مسكن، بيت/حجر» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں جو کہ باب کے ساتھ واضح مناسبت رکھتے ہیں۔
فائدہ:
بعض لا علم حضرات انہی بے علمی اور نا سمجھی کی وجہ سے احادیث صحیحہ پر طعن کرتے نظر آتے ہیں، حدیث کے پس منظر سے ناواقفیت اور غلط زاویے میں اس کا مطالعہ کئی اعتراضات کے جنم کا ذریعہ بنتا ہے۔ بعین اسی طرح سے مذکورہ بالا حدیث جس کے راوی سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسکن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ فتنے یہاں سے برپا ہوں گے۔
لہذا بعض لا علم اور انکار حدیث کی طرف میلان رکھنے والے حضرات نے اس پر اعتراض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسکن کو بھی فتنہ قرار نہیں دے سکتے؟ لہذا یہ ام المومنین رضی اللہ عنہا پر کسی نے طعن کے غرض سے یہ جھوٹی حدیث گھڑ دی ہے۔
مندرجہ بالا حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی مقامات پر ذکر فرمایا:
① کتاب بدء الخلق، باب صفت ابلیس و جنودہ، ر قم: 3279۔
② کتاب المناقب، رقم: 3511۔
③ کتاب الطلاق، باب الاشارۃ فی الطلاق، رقم: 5296۔
④ کتاب الفتن، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم الفتنۃ من قبل المشرق، رقم: 7092۔
ان ابواب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے مندرجہ بالا حدیث کو کہیں مختصر تو کہیں طویل ذکر فرمایا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسکن کی طرف اشارہ اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ (نعوذ باللہ) فتنہ کا ممبر و سرچشمہ مسکن عائشہ رضی اللہ عنہا ہے بلکہ یہ اشارہ اس لئے تھا کہ جس جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے اس کے مشرق کی طرف عراق کا رخ تھا اور مسکن عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ مشرق کی جانب تھا، یہی مطلب ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا جس میں مسکن عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارے کا ذکر ہے، بلکہ ایک واضح حدیث جس کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر فرمائی، آپ لکھتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نقل فرماتے ہیں کہ جب آپ نے اہل عراق والوں کو مخاطب فرمایا تو کہا:
«سمعت أبى يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يشير بيده نحو المشرق ويقول: ان الفتنة تجئ من وهنا و أوما بيده نحو المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان» [فتح الباري، ج 14، ص: 40]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرماتے تھے مشرق کی جانب اور فرما رہے تھے: یہیں سے شیطان کے سینگ نمودار ہوں گے۔
مذکورہ حدیث میں امام مسلم رحمہ اللہ نے عراق والوں کو مخاطب فرما کر واضح اس حدیث کا مصداق عراق کو ٹھہرایا نہ کہ مسکن عاشہ رضی اللہ عنہا کو۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هنا الفتنه إلى جانب المشرق و هو العراق و هذا مثار الفتنة» [عمدة القاري، ج 15، ص: 47]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا: فتنہ یہاں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ فرمانا (امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسکن کے لئے نہیں بلکہ) مشرق کی جانب ہے جو کہ عراق ہی ہے اور یہی مثار ہے فتنہ کا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عراق کے فتنہ پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«كان اهل المشرق يومئذ أهل كفر فأخبره صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك ناحية فكان كما أخبرو أول الفتن كان من قبل المشرق و كان ذالك سببا للفرقة بين المسلمين، و ذالك مما يحبه الشيطان و يفرح به، وكذالك البدع نشأت من تلك الجهة.» [فتح الباري، ج 14، ص: 41]
یعنی (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں) اہل مشرق (عراق) اہل کفر تھے جس کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی کہ فتنہ اس طرف سے ہو گا، پس اسی طرح ہوا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، سب سے پہلا فتنہ مشرق کی جانب سے ہوا جس کی پاداش میں دو مسلمانوں کے فرقے وجود میں آئے اور اس سبب پر شیطان بہت خوش ہوا اور اس کو پسند کیا، اسی طرح سے بدعت کی ابتداء بھی اسی جگہ سے ہوئی۔
حافظ صاحب کے اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ بدعت اور کفر کا سرچشمہ عراق کی سر زمین کو ٹھہرا رہے ہیں، حقیقتا اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ ذی شعور پر عیاں ہو گا کہ کوفہ (عراق) کی سرزمین پر کئی ایک فتنے نمودار ہوئے جنہوں نے اسلام دشمنی میں کسی قسم کی کوئی کسر نہ چھوڑی، مثلا:
① عبداللہ بن سبا یہودی کا فتنہ جس نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں سر اٹھایا، اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ناپاک عزائم اور شرک کی غلاظت کے ساتھ اپنی دعوت کو لوگوں تک پہنچایا۔
② اسی غلیظ عقائد کی پاداش میں رافضی فرقہ وجود میں آیا۔ ان عقائد کی بنیاد عبد اللہ بن سبا نے کوفہ میں رکھی۔
③ خوارجی فرقہ نے بھی اپنا سر کوفہ سے اٹھایا۔
④ معتزلہ فرقہ بھی کوفہ سے اٹھا۔
⑤ مرجئہ فرقہ بھی کوفہ سے اٹھا۔
⑥ قدریہ فرقہ بھی کوفہ سے اٹھا۔
⑦ جبریہ فرقہ بھی کوفہ سے ہی اٹھا۔
⑧ اباحیہ فرقہ بھی کوفہ ہی سے اٹھا۔
⑨ اور اہل رائے بھی اسی جگہ سے اٹھے۔
⑩ کوفہ میں 276ھ میں ایک ایسا فتنہ نمودار ہوا کہ شراب اور زنا کو جائز قرار دیا، یہاں تک نہیں بلکہ ستم یہ ہوا کہ محرمات کے ساتھ بھی زنا کو جائز قرار دیا گیا۔ عراق کی سر زمین پر زنا، قتل عام، لوٹ مار یہ تمام جرائم کی فہرست طویل ہے، یہاں تک کہ بیت اللہ سے حجر اسود کو بھی نکال دیا گیا، جو کہ ایک طویل عرصے تک حجر اسود کو بیت اللہ سے محروم رکھا گیا، اس کی مدت تقریبا بیس سال کے لگ بھگ ہے، اس کے بعد بھی یہ فتنہ بڑھتا گیا حتی کہ حجاج کا قتل ہوا، کوفہ اور عراق سے شیعیت کا فتنہ اتنا عروج پر پہنچا کہ خلافت اسلامیہ کو شدید نقصان ہوا، مزید یہ فتنہ آگے چلا کہ بغداد میں قیامت کبری قائم ہو گئی کہ ساٹھ ملین کے قریب لوگوں کو ذبح کر دیا گیا، یہ فتنہ بڑھتا گیا یہاں تک کہ ہمارے زمانے میں آن پہنچا، آپ دیکھ سکتے ہیں ایران اور خلیج کی لڑائی میں کئی جانیں ضائع ہوئیں جس کا شمار اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے، اور آج یہ خوارج کا فتنہ دوبارہ کوفہ اور عراق سے نمودار ہوا ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں نہیں ہزاروں ایمان والوں کے عقائد برباد ہو گئے۔
لہذا اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ فتنے کی جگہ مشرقی جانب عراق کو کہا گیا ہے نہ کہ مسکن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو۔
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«نجد من جهة المشرق، و من كان بالمدينة كان نجده بادية العراق و نواحيها. وهى مشرق أهل المدينة.» [فتح الباري، ج 6، ص: 162]
لہذا امام خطابی رحمہ اللہ نے بھی واضح کیا کہ نجد سے مراد عراق ہے جو مدینہ کے مشرق میں ہے۔
تنبیہ: لغت کے اعتبار سے نجد زمین کے اس حصے کو کہا جاتا ہے جو اوپر ہو اور اس کا مقابل غدر ہے جو پست زمین ہے۔
«أصل النجد ما ارتفع من الأرض و هو خلاف الغد رفانه ما انخفض منها»
لہذا یہ معلوم ہونا چاہے کہ ایک نجد یمامہ ہے اور دو سرا نجد عراق ہے، حدیث میں جو الفاظ نجد کے لئے وارد ہوئے ہیں وہ نجد عراق ہے نہ کہ نجد یمامہ، بعض مفسدین اور حاسدین اپنے مذموم عقائد کے دفاع کے لئے شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کو نجدی کہہ کر انہیں فتنہ کا موجب قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ بات صرف بہتان ہے کیونکہ آپ کا تعلق نجد عراق سے ہرگز نہیں ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 451   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 443  
´خاوند کا اپنی بیوی کو غسل دینا`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہو جائے تو میں تمہیں غسل دوں گا۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 443]
فائدہ: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور سنن ابن ماجہ کی تحقیق و تخریج میں اس کی بابت مزید لکھا ہے کہ مذکورہ حدیث کے بعض حصوں کے شواہد صحیح بخاری میں ہیں۔ دیکھیے: سنن ابن ماجہ، تحقیق و تخریج، حدیث: 1465۔
علاوہ ازیں دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو حسن قرار دیا ہے، ان کی تحقیقی بحث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث حسن درجے کی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے [الموسوعة الديثية مسند الامام احمد: 82،81/43۔ وارواء الغليل، حديث: 700]
بنابریں خاوند اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے اور کفن بھی پہنا سکتا ہے۔ بعض علماء نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن تخصیص کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے اس کی عمومیت ثابت ہے جیساکہ موطا امام مالک اور سنن کبریٰ بیھقی میں مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات پر ان کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے انھیں غسل دیا۔ [الموطا للامام مالك، الجنائز،باب غسل الميت، والسنن الكبريٰ للبيهقي: 397/3]
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کی بابت بھی مروی ہے کہ انھوں نے بھی اپنی زوجہ محترمہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات پر غسل دیا تھا۔ [سنن الدارقطني، الجنائز والسنن الكبريٰ للبيهقي: 392/3]
اس لیے باقی امت کے لیے بھی یہی حکم ہے، اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ خاص قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 443   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 798  
´امام کی اقتداء کرنے والے کی اقتداء کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آگے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 798]
798 ۔ اردو حاشیہ:
➊زیادہ صحیح روایات کے مطابق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب برابر کھڑے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان اسی طرف ہے۔ ترجمۃ الباب میں فرماتے ہیں: «باب یقوم عن یمین الإمام بحدائه سواء إذا کانا اثنین» مقتدی امام کے بالکل برابر دائیں جانب کھڑا ہو گا جبکہ (نماز پڑھتے وقت) صرف دو ہوں۔ [صحیح البخاري الأذان باب: 57]
اس کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طویل حدیث ہے۔ مسند احمد میں صحیح سند کے ساتھ یہ اضافہ بھی موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ما شأني أَجعلُك حِذائي فتخْنِسُ» کیا وجہ ہے میں تجھے اپنے برابر کھڑا کرتا ہوں اور تو پیچھے ہٹتا ہے۔ [مسند أحمد: 330/1]
اس کی مزید تائید اس اثر سے ہوتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک آدمی کھڑا ہوا انہوں نے اسے قریب کیا اور اپنی دائیں طرف بالکل برابر کر لیا۔ موطا امام مالک میں صحیح سند کے ساتھ یہ اثر موجود ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: «مختصر صحیح البخاري للألباني: 226/1]
ان دلائل سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو مقتدی کے امام کے عین برابر کھڑے ہونے کے قائل نہیں بلکہ ان کے ہاں مستحب یہ ہے کہ جب صرف دو نمازی ہوں تو مقتدی امام سے کچھ ہٹ کر کھڑا ہو لیکن یہ موقف مرجوح ہے۔ عین برابر کھڑا ہونے کا موقف حنابلہ اور احناف میں سے امام محمد رحمہ اللہ کا ہے جیسا کہ موطا میں ان کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے: [سلسلة الأحادیث الصحیحة حدیث: 606]
➋ لوگ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتدا کرتے تھے البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے یا ابوبکر رضی اللہ عنہ؟ امام نسائی رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے مقتدی اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقتدی۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حیثیت مکبر و مبلغ کی تھی جیسا کہ بعد میں آنے والی حدیث جابر اس پر دلالت کرتی ہے۔ مزید ملاحظہ ہو: [ذخيرة العقبيٰ شرح سنن النسائي: 119/10]
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر سے آگے تھے مفصل اور واضح روایات کے منافی نہیں کیونکہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر امامت کروائی تھی اور بیٹھا آدمی کھڑے کی نسبت آگے ہی لگتا ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 798   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 834  
´امام بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی، بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی خبر دینے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوبکر نرم دل آدمی ہیں، وہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو (قرآن) نہیں سنا سکیں گے ۱؎ اگر آپ عمر کو حکم دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں، تو میں نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو، تو حفصہ نے (بھی) آپ سے کہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیاں ہو ۲؎، ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، (بالآخر) لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، تو جب انہوں نے نماز شروع کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو آپ اٹھے اور دو آدمیوں کے سہارے چل کر نماز میں آئے، آپ کے دونوں پاؤں زمین سے گھسٹ رہے تھے، جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے آنے کی آہٹ محسوس کی، اور وہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ جس طرح ہو اسی طرح کھڑے رہو، ام المؤمنین کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بائیں بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے تھے، ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی اقتداء کر رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 834]
834 ۔ اردو حاشیہ:
«صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ» یعنی تم بھی ان عورتوں کی طرح اصل مقصد چھپائے ہوئے ظاہر کچھ اور کر رہی ہو۔ «صَوَاحِبَاتُ» سے مراد وہ عورتیں ہیں جنھوں نے مکر کے ساتھ ہاتھ کاٹے تھے۔ ہاتھ کاٹنے والی عورتیں یوسف علیہ السلام کو رجھانے (مائل کرنے) کا مقصد رکھتی تھیں مگر بظاہر امرأۃ العزیز (عزیز مصر کی بیوی) کو شرافت کا درس دے رہی تھیں۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افاقہ محسوس فرمایا۔ ظاہر الفاظ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید جس نماز میں ابوبکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا گیا تھا اسی نماز کے دوران میں آپ نے افاقہ محسوس فرمایا اور مسجد کو تشریف لے گئے مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے بلکہ یہ کئی دن بعد کی بات ہے۔ گویا آپ کے حکم کے تحت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جماعت کراتے رہے۔ ایک دن جماعت شروع کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ محسوس ہوا اور آپ تشریف لے گئے۔ یاد رہے کہ یہ جماعت جو آپ نے اس طرح ادا فرمائی ظہر کی نماز تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [صحیح البخاري الأذان حدیث: 687]
➌ بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے مقتدی کس طرح نماز پڑھیں؟ اس کی تفصیلی بحث پچھلی روایت میں گزر چکی ہے۔ دیکھیے حدیث: 833۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 834   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 835  
´امام بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں۔`
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، اور میں نے ان سے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کا حال نہیں بتائیں گی؟ انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی شدت بڑھ گئی، تو آپ نے پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ تو ہم نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے ٹب میں پانی رکھو؛ چنانچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر اٹھنے چلے تو آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ تو ہم نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے ٹب میں پانی رکھو؛ چنانچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر آپ اٹھنے چلے تو پھر بیہوش ہو گئے، پھر تیسری بار بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا، لوگ مسجد میں جمع تھے، اور عشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہلوا بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تو قاصد ان کے پاس آیا، اور اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی تھے، تو انہوں نے (عمر رضی اللہ عنہ سے) کہا: عمر! تم لوگوں کو نماز پڑھا دو، تو انہوں نے کہا: آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں؛ چنانچہ ان ایام میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اندر ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں کے سہارے (ان دونوں میں سے ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے) نماز ظہر کے لیے آئے، تو جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ وہ پیچھے نہ ہٹیں، اور ان دونوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کو ان کے بغل میں بٹھا دیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا رہے تھے، لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صلاۃ کی اقتداء کر رہے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے۔ (عبیداللہ کہتے ہیں) میں ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آیا، اور میں نے ان سے کہا: کیا میں آپ سے وہ چیزیں بیان نہ کر دوں جو مجھ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے متعلق بیان کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں! ضرور بیان کرو، تو میں نے ان سے سارا واقعہ بیان کیا، تو انہوں نے اس میں سے کسی بھی چیز کا انکار نہیں کیا، البتہ اتنا پوچھا: کیا انہوں نے اس شخص کا نام لیا جو عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے کہا: وہ علی (کرم اللہ وجہہ) تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 835]
835 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تپ محرقہ تھی اور شدید تھی اس لیے باوجود تین مرتبہ غسل فرمانے کے بخار کم نہ ہوا اور آپ اٹھ نہ سکے بلکہ بار بار بے ہوش ہوتے رہے۔
➋ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے اس لیے کہا کہ ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد جماعت قائم کروانا ہے نہ کہ مجھے مقرر فرمانا لہٰذا کوئی جماعت کروا دے۔ انہیں اس مکالمے کا علم نہ تھا جو آپ کے اور آپ کی ازواج مطہرات کے درمیان ہوا تھا۔
➌ وہ حضرت علی تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کا نام نہیں لیا کیونکہ وہ متعین نہیں تھے بلکہ ایک طرف تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہی رہے دوسری طرف بدلتے رہے کبھی حضرت علی کبھی حضرت بلال اور کبھی حضرت اسامہ رضی اللہ عنھم جیسا کہ مختلف روایات سے پتہ چلتا ہے۔ (مزید فوائد کے لیے دیکھیے حدیث: 833 834)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 835   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1232  
´مرض الموت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے (ابومعاویہ نے کہا: جب آپ مرض کی گرانی میں مبتلا ہوئے) تو بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی ہیں، جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے، اور نماز نہ پڑھا سکیں گے، لہٰذا اگر آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، (تو بہتر ہو) تو آپ صلی ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1232]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
رسول اللہ ﷺکی نظر میں نماز باجماعت اس قدر اہمیت کی حامل تھی کہ شدید مرض میں بھی آپﷺ نے باجماعت نماز ادا فرمائی۔

(2)
رسول اللہﷺ کو گھر سے مسجد تک سہارا دے کر لانے والے حضرات علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ او ر عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، باب حد المریض ان یشھد الجماعة، حدیث: 665)

(3)
بڑے عالم کے احترام میں اس کی موجودگی میں نماز نہ پڑھانا درست ہے۔

(4)
مذکورہ بالا نماز میں رسول اللہ ﷺ ہی امام تھے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکبر کی حیثیت سے نبی ﷺ کی تکبیر نمازیوں تک پہنچانے کےلئے بلند آواز سے تکبیر کہتے تھے۔
اس لئے عام صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کا رکوع اور سجود حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تکبیرات کے مطابق تھا۔

(5)
اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھائے۔
تو مقتدیوں کو کھڑے ہو کر نماز پڑھنی چاہیے۔
علمائے کرام نے اس حدیث کو ان ارشادات نبوی کا ناسخ قرار دیا ہے۔
جن میں یہ عذر ہے کہ امام عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدیوں کو اگرچہ وہ عذر نہ ہو تاہم وہ امام کی اقتداء میں بیٹھ کر نماز ادا کریں۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، باب النھی عن مبادرۃ الإمام بالتکبیر وغیرہ، حدیث: 417 وسنن ابن ماجة، حدیث: 1237)

(6)
نبی اکرمﷺنے امہات المومنین سے فرمایا۔
تم یوسف کی ساتھ والیاں ہو یہ تشبیہ اس لئے دی کہ مصر کی عورتوں نے حضرت یوسف علیہ السلام سے ایسے کام کا مطالبہ کیا جو مناسب نہیں تھا۔
اسی طرح امہات المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بجائے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امامت کا مطالبہ کیا جو درست نہیں تھا۔
یہ تشبیہ نا مناسب مطالبہ پر اصرار کرنے کے لحاظ سے ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1232   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3672  
´ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے مناقب و فضائل کا بیان`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، اس پر عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! ابوبکر جب آپ کی جگہ (نماز پڑھانے) کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو قرأت نہیں سنا سکیں گے ۱؎، اس لیے آپ عمر کو حکم دیجئیے کہ وہ نماز پڑھائیں، پھر آپ نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‏‏‏‏ عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: تو میں نے حفصہ سے کہا: تم ان سے کہو کہ ابوبکر جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو رونے کے سبب قرأت نہیں سنا سکیں گے، اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3672]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کیوں کہ ابوبکر پر رقت طاری ہو جائے گی ا ورہ رونے لگیں گے پھر رونے کی وجہ سے اپنی قرأت لوگوں کو نہیں سنا سکیں گے،
اور بعض روایات کے مطابق اس کا سبب عائشہ نے یہ بیان کیا،
اور بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ آپﷺ کی موجود گی میں آپﷺ کی جگہ پر کھڑے ہو نے پر ابوبکر اپنے غم ضبط نہیں کر پائیں گے اس طرح لوگوں کو نماز نہیں پڑھا پائیں گے،
واللہ اعلم۔

2؎:
صواحبات یوسف سے تشبیہ دینے کی وضاحت یہ ہے کہ جس طرح زلیخا کی عورتوں کی ضیافت حقیقت میں مقصود نہیں تھی،
بلکہ مقصود یہ بات تھی کہ وہ عورتیں یوسف کا حسن مشاہدہ کرنے کے بعد مجھ پر لعن طعن نہیں کریں گی،
اس طرح عائشہ رضی اللہ عنہا کا حقیقی مقصد کچھ اور تھا،
اور ظاہرمیں کچھ اور کر رہی تھی حقیقی مقصدیہ تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت کے بعد اگر نبی اکرمﷺ کی وفات ہو جاتی ہے،
تو لوگ ان کو منحوس سمجھیں گے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3672