موطا امام مالك رواية ابن القاسم
قرآن و تفسیر کا بیان

سورۂ فتح کی فضیلت
حدیث نمبر: 572
167- مالك عن زيد بن أسلم عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسير فى بعض أسفاره، وعمر بن الخطاب يسير معه ليلا فسأله عمر بن الخطاب عن شيء فلم يجبه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم سأله فلم يجبه، ثم سأله فلم يجبه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر بن الخطاب: ثكلتك أمك عمر، نزرت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث مرات، كل ذلك لا يجيبك، قال: قال عمر فحركت بعيري حتى تقدمت أمام الناس وخشيت أن ينزل فى قرآن، فما نشبت أن سمعت صارخا يصرخ، فقلت: لقد خشيت أن يكون نزل فى قرآن، فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلمت عليه، فقال: ”لقد أنزلت على الليلة سورة لهي أحب إلى مما طلعت عليه الشمس“، ثم قرأ: {إنا فتحنا لك فتحا مبينا}. قال أبو الحسن: قوله: قال: ”فحركت بعيري“ إلى آخره، يبين أن أسلم عن عمر رواه.
اسلم (تابعی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی سفر میں جا رہے تھے اور سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا، پھر (دوبارہ) پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا، پھر (سہ بار) پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے  (اپنے آپ سے) کہا: اے عمر! تجھے تیری ماں گم پائے، تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین دفعہ اصرار کر کے سوالات کئے اور ہر دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اپنے اونٹ کو حرکت دی حتیٰ کہ میں لوگوں کے سامنے پہنچ گیا اور مجھے ڈر لگا کے میرے بارے میں قرآن نازل ہو جائے گا تھوڑی ہی دیر بعد میں نے ایک آواز دینے والے کی اونچی آواز سنی، تو میں نے کہا: مجھے ڈر ہے کہ میرے بارے میں قر آن نازل ہو گیا ہے، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ کو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے ہر اس چیز سے زیادہ پیاری جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے، «إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا» ہم نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی (سورة فتح) کی تلاوت فرمائی۔ ابوالحسن (القابسی) نے کہا: راوی کا قول ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے اونٹ کو حرکت دی۔۔۔ الخ، یہ واضح کرتا ہے کہ اس روایت کو اسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «167- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 203/1, 204 ح 478، ك 15 ب 4 ح 9) التمهيد 263/3، الاستذكار:447، و أخرجه البخاري (4177) من حديث مالك به.»
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 572  
´رات کو سفر کرنا جائز ہے`
«. . . مالك عن زيد بن اسلم عن ابيه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسير فى بعض اسفاره . . .»
. . . اسلم (تابعی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی سفر میں جا رہے تھے اور سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 572]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 4177، من حديث مالك به]
تفقه:
① بعض اوقات کسی مصروفیت یا عذر کی وجہ سے اگر سائل کے سوال کا جواب نہ دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
② رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے ہر وقت ڈرنا چاہئے۔
③ سورۂ فتح سفر میں نازل ہوئی تھی جبکہ آپ سواری پر سوار تھے۔
④ رات کو سفر کرنا جائز ہے۔
⑤ عالم پر ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہے لہٰذا اگر عالم جواب نہ دے تو سائل کو ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے چپ ہوجانا چاہئے، اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ فوری جواب دے۔
⑥ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تقوی اور حب رسول کے اعلی مقام پر فائز تھے۔
⑦ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بڑا مقام تھا۔
⑧ سند حدیث سے اس کے مرسل ہونے کا گمان ہوتا ہے، ابوالحسن القابسی رحمہ اللہ نے اسی شبہے کا ازالہ کیا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 167   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3262  
´سورۃ الفتح سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے، میں نے آپ سے کچھ کہا، آپ خاموش رہے، میں نے پھر آپ سے بات کی آپ پھر خاموش رہے، میں نے پھر بات کی آپ (اس بار بھی) خاموش رہے، میں نے اپنی سواری کو جھٹکا دیا اور ایک جانب (کنارے) ہو گیا، اور (اپنے آپ سے) کہا: ابن خطاب! تیری ماں تجھ پر روئے، تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین بار اصرار کیا، اور آپ نے تجھ سے ایک بار بھی بات نہیں کی، تو اس کا مستحق اور سزاوار ہے کہ تیرے بارے میں کوئی آیت نازل ہو (اور تجھے سرزنش کی جائے) عمر بن خطاب کہتے ہیں: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3262]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بیشک اے نبیﷺ!ہم نے آپﷺ کوایک کھلم کھلا فتح دی ہے (الفتح: 1)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3262