صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ -- کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
5. بَابُ مَا ذُكِرَ مِنْ دِرْعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَصَاهُ وَسَيْفِهِ وَقَدَحِهِ وَخَاتَمِهِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ، عصاء مبارک، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار، پیالہ اور انگوٹھی کا بیان۔
حدیث نمبر: 3107
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَسَدِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ طَهْمَانَ، قَالَ: أَخْرَجَ إِلَيْنَا أَنَسٌ نَعْلَيْنِ جَرْدَاوَيْنِ لَهُمَا قِبَالَانِ" فَحَدَّثَنِي ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ بَعْدُ عَنْ أَنَسٍ، أَنَّهُمَا نَعْلَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے محمد بن عبداللہ اسدی نے بیان کیا ‘ ان سے عیسیٰ بن طہمان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہمیں دو پرانے جوتے نکال کر دکھائے جن میں دو تسمے لگے ہوئے تھے ‘ اس کے بعد پھر ثابت بنانی نے مجھ سے انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ وہ دونوں جوتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4134  
´جوتا پہننے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جوتے میں دو تسمے (فیتے) لگے تھے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4134]
فوائد ومسائل:
ایک پٹی انگوٹھے کے ساتھ سے اور دوسری درمیانی اور ساتھ والی انگلی کے درمیان سے ہوتی ہوئی پاوں کی پشت پر عرض میں لگی پٹی سے جا ملتی تھے، جسے شراک کہا جاتا ہے۔
فائدہ: ظاہر ہے کہ یہ حکم ان جوتوں سے متعلق جنہیں ہاتھ کی مدد سے پہننا ہوتا ہے اور جو جوتے بلا تکلف پہنے جا سکتے ہوں ان کے لئے بیٹھنے کی کوئی وجہ نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4134   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3107  
3107. حضرت عیسیٰ بن طہمان سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت انس ؓنے بالوں کے بغیر چمڑے کی وہ پرانی جوتیاں ہمیں دکھائیں جن پر دو تسمے لگے ہوئے تھے۔ اس کے بعد ثابت بنانی نے یہ حدیث حضرت انس ؓ کے حوالے سے بیان کی کہ انھوں نے فرمایا کہ یہ نبی کریم ﷺ کی پاپوش مبارک ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3107]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ کی تمام استعمال کردہ اشیاء بابرکت تھیں، ان سے برکت حاصل کرنا شرعاً جائز ہے، البتہ ان اشیاء کی خود ساختہ تصاویر بطور نمائش استعمال کرنا خلاف شرع ہے، چنانچہ آج کل ایک مخصوس مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ اکثر دکانوں اور بسوں میں رسول اللہ ﷺ کی نعلین کی تصویر کے کارڈلیے پھرتے ہیں اور ان کے متعلق لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اسے گھر، دوکان یا دفتر میں رکھنے سے ہر قسم کی مصیبت اوربلاٹل جاتی ہے۔
تنگ دست کی تنگ دستی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے یہ سب جذباتی باتیں خلاف شریعت ہیں۔
تصویر سے اگراصل کا مقصد حاصل ہوسکتا ہے تو ہر گھر میں بیت اللہ کی تصویر رکھ کر اس کا طواف کیا جاسکتا ہے اور وہاں نماز پڑھ کر لاکھ نماز کا ثواب بھی حاصل کیا جاسکتا ہے؟ حجر اسود کی تصویر رکھ کر اس کو بوسہ دیا جائے تاکہ مکہ مکرمہ جانے کی ضرورت ہی نہ رہے۔
اللہ تعالیٰ انھیں سمجھ عطا فرمائے۔

امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ نعلین حضرت انس ؓ کے پاس تھیں اور انھیں بطور وراثت تقسیم نہیں کیا گیا بلکہ ان کے پاس ہی انھیں رہنے دیا گیا۔
حضرت انس ؓ اپنی عمر کے آخری حصے میں دمشق چلے گئے۔
وہاں رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب نعلین مبارک بھی نویں ہجری کے آغازمیں فتنہ تیمورلنگ کے وقت ضائع ہوگئیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3107