صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ -- کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
7. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ الانفال میں) کہ جو کچھ تم غنیمت میں حاصل کرو، بیشک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تقسیم کریں گے۔
حدیث نمبر: 3117
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، حَدَّثَنَا هِلَالٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَا أُعْطِيكُمْ وَلَا أَمْنَعُكُمْ أَنَا قَاسِمٌ أَضَعُ حَيْثُ أُمِرْتُ".
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے بلال نے بیان کیا ان سے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ میں تمہیں کوئی چیز دیتا ہوں ‘ نہ تم سے کسی چیز کو روکتا ہوں۔ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں۔ جہاں جہاں کا مجھے حکم ہوتا ہے بس وہیں رکھ دیتا ہوں۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2949  
´امام پر رعایا کے کیا حقوق ہیں؟ اور ان حقوق کے درمیان رکاوٹ بننے کا وبال۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم کو کوئی چیز نہ اپنی طرف سے دیتا ہوں اور نہ ہی اسے دینے سے روکتا ہوں میں تو صرف خازن ہوں میں تو بس وہیں خرچ کرتا ہوں جہاں مجھے حکم ہوتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2949]
فوائد ومسائل:
نبی کریم ﷺ پوری امت اسلامیہ بلکہ بنی نوع انسان کے سید اور سردار ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو اللہ کی طرف سے خزانچی باور کرا رہے ہیں۔
تو اس کا مطلب ہے کہ ریاست کے وسائل حکمرانوں کی ملکیت نہیں ہوتے۔
ان کے خرچ کرنے میں وہ خود مختار نہیں ہوتے۔
بلکہ تمام شرکاء یعن تمام بندوں کا ان میں حق ہوتا ہے۔
اور سب کو اس کے مطابق ان سے مستفید ہونے کا برابر موقع ملنا چاہیے۔
بلکہ جو نادار اور محتاج ہوں۔
ان کو زیادہ ملنا چاہیے۔
لیکن خلافت راشدہ کے بعد بادشاہت میں مسلمانوں کے وسائل کے استعمال میں حکمران زیادہ سے زیادہ خود مختار ہوتے گئے اور خزانے کو اپنے لئے شیرمادر سمجھنے لگے۔
اور جس کسی کو کچھ دیتے تو استحقاق کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اپنے ساتھ وفاداری وغیرہ کی وجہ سے دیتے، یہ خیانت کے مترادف ہے۔
اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2949   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3117  
3117. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تمھیں کوئی چیز نہیں دیتا اور نہ تم سے کوئی چیز روکتا ہوں۔ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں۔ مجھے جہاں جہاں حکم ہوتا ہے وہاں وہاں تقسیم کردیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3117]
حدیث حاشیہ:
اموال غنیمت پر اشارہ ہے کہ اس کی تقسیم امرالہیٰ کے مطابق میرا کام ہے‘ دینے والا اللہ پاک ہی ہے‘ اس لئے جس کو جو کچھ مل جائے اسے بخوبی قبول کرنا چاہئے اورجو ملے گا وہ عین اس کے حق کے مطابق ہی ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3117   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3117  
3117. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تمھیں کوئی چیز نہیں دیتا اور نہ تم سے کوئی چیز روکتا ہوں۔ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں۔ مجھے جہاں جہاں حکم ہوتا ہے وہاں وہاں تقسیم کردیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3117]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عطا کرنے والا اور منع کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، رسول اللہ ﷺ کو جو حکم ہوتا آپ اس کے مطابق عمل کرتے۔

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اموال غنیمت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اس کی تقسیم امر الٰہی، یعنی اللہ کے حکم کے مطابق میرا کام ہے۔
دینے والا اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے جس کو جو کچھ مل جائے اسے بخوشی قبول کرلے اور جو ملے گا اس میں رسول اللہ ﷺ کا ذاتی کوئی عمل دخل نہیں ہوگا بلکہ وہ عین اس حق کے مطابق ہوگا جو اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مال خمس کے مالک نہیں تھے بلکہ آپ صرف قاسم تھے اور تقسیم بھی امرالٰہی کے مطابق کرتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3117