صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ -- کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
8. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُحِلَّتْ لَكُمُ الْغَنَائِمُ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ تمہارے لیے غنیمت کے مال حلال کئے گئے۔
حدیث نمبر: 3124
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" غَزَا نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَقَالَ: لِقَوْمِهِ لَا يَتْبَعْنِي رَجُلٌ مَلَكَ بُضْعَ امْرَأَةٍ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَبْنِيَ بِهَا وَلَمَّا يَبْنِ بِهَا، وَلَا أَحَدٌ بَنَى بُيُوتًا، وَلَمْ يَرْفَعْ سُقُوفَهَا، وَلَا أَحَدٌ اشْتَرَى غَنَمًا أَوْ خَلِفَاتٍ وَهُوَ يَنْتَظِرُ وِلَادَهَا فَغَزَا فَدَنَا مِنَ الْقَرْيَةِ صَلَاةَ الْعَصْرِ أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: لِلشَّمْسِ إِنَّكِ مَأْمُورَةٌ وَأَنَا مَأْمُورٌ، اللَّهُمَّ احْبِسْهَا عَلَيْنَا فَحُبِسَتْ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَجَمَعَ الْغَنَائِمَ، فَجَاءَتْ يَعْنِي النَّارَ لِتَأْكُلَهَا فَلَمْ تَطْعَمْهَا، فَقَالَ: إِنَّ فِيكُمْ غُلُولًا فَلْيُبَايِعْنِي مِنْ كُلِّ قَبِيلَةٍ رَجُلٌ فَلَزِقَتْ يَدُ رَجُلٍ بِيَدِهِ، فَقَالَ: فِيكُمُ الْغُلُولُ فَلْيُبَايِعْنِي قَبِيلَتُكَ فَلَزِقَتْ يَدُ رَجُلَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ بِيَدِهِ، فَقَالَ: فِيكُمُ الْغُلُولُ فَجَاءُوا بِرَأْسٍ مِثْلِ رَأْسِ بَقَرَةٍ مِنَ الذَّهَبِ فَوَضَعُوهَا فَجَاءَتِ النَّارُ فَأَكَلَتْهَا، ثُمَّ أَحَلَّ اللَّهُ لَنَا الْغَنَائِمَ رَأَى ضَعْفَنَا وَعَجْزَنَا فَأَحَلَّهَا لَنَا".
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا ‘ ان سے معمر نے ‘ ان سے ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے ایک نبی (یوشع علیہ السلام) نے غزوہ کرنے کا ارادہ کیا تو اپنی قوم سے کہا کہ میرے ساتھ کوئی ایسا شخص جس نے ابھی نئی شادی کی ہو اور بیوی کے ساتھ رات بھی نہ گزاری ہو اور وہ رات گزارنا چاہتا ہو اور وہ شخص جس نے گھر بنایا ہو اور ابھی اس کی چھت نہ رکھی ہو اور وہ شخص جس نے حاملہ بکری یا حاملہ اونٹنیاں خریدی ہوں اور اسے ان کے بچے جننے کا انتظار ہو تو (ایسے لوگوں میں سے کوئی بھی) ہمارے ساتھ جہاد میں نہ چلے۔ پھر انہوں نے جہاد کیا ‘ اور جب اس آبادی (اریحا) سے قریب ہوئے تو عصر کا وقت ہو گیا یا اس کے قریب وقت ہوا۔ انہوں نے سورج سے فرمایا کہ تو بھی اللہ کا تابع فرمان ہے اور میں بھی اس کا تابع فرمان ہوں۔ اے اللہ! ہمارے لیے اسے اپنی جگہ پر روک دے۔ چنانچہ سورج رک گیا ‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عنایت فرمائی۔ پھر انہوں نے اموال غنیمت کو جمع کیا اور آگ اسے جلانے کے لیے آئی لیکن جلا نہ سکی ‘ اس نبی نے فرمایا کہ تم میں سے کسی نے مال غنیمت میں چوری کی ہے۔ اس لیے ہر قبیلہ کا ایک آدمی آ کر میرے ہاتھ پر بیعت کرے (جب بیعت کرنے لگے تو) ایک قبیلہ کے شخص کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے چمٹ گیا۔ انہوں نے فرمایا ‘ کہ چوری تمہارے قبیلہ ہی والوں نے کی ہے۔ اب تمہارے قبیلے کے سب لوگ آئیں اور بیعت کریں۔ چنانچہ اس قبیلے کے دو تین آدمیوں کا ہاتھ اس طرح ان کے ہاتھ سے چمٹ گیا ‘ تو آپ نے فرمایا کہ چوری تمہیں لوگوں نے کی ہے۔ (آخر چوری مان لی گئی) اور وہ لوگ گائے کے سر کی طرح سونے کا ایک سر لائے (جو غنیمت میں سے چرا لیا گیا تھا) اور اسے مال غنیمت میں رکھ دیا ‘ تب آگ آئی اور اسے جلا گئی ‘ پھر غنیمت اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے جائز قرار دے دی ‘ ہماری کمزوری اور عاجزی کو دیکھا۔ اس لیے ہمارے واسطے حلال قرار دے دی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3124  
3124. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پہلے انبیاء ؑ میں سے ایک نبی نے جہاد کیا، تو انھوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میرے ساتھ وہ شخص نہ جائے جس نے کسی عورت سے نکاح تو کیا ہولیکن ابھی تک رخصتی نہ ہوئی ہو جبکہ وہ رخصتی کا خواہاں ہو۔ اور نہ وہ شخص جائے جس نے گھر کی چار دیواری تو کی ہو لیکن ابھی تک چھت نہ ڈالی ہو۔ اور نہ وہ شخص ہی جائے جس نے حاملہ بکریاں اور اونٹنیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے بچے جننے کا منتظر ہو۔ (یہ کہہ کر) پھر وہ جہاد کے لیے روانہ ہوئے اور ایک گاؤں کے قریب اس وقت پہنچے کہ عصر کا وقت قریب تھا یا ہوچکا تھا۔ انھوں نے آفتاب سے کہا: تو بھی اللہ کا محکوم ہے اور میں بھی اللہ کا تابع فرمان ہوں، پھر یوں دعا کی: اے اللہ! اسے ہمارے لیے غروب ہونے سے روک دے، چنانچہ اسے روک لیا گیا حتیٰ کہ اللہ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3124]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں اسرائیل نبی یوشع ؑ کا ذکر ہے جو جہاد کو نکلے تھے کہ نماز عصر کا وقت ہوگیا۔
انہوں نے دعا کی‘ اللہ نے ان کی دعا کو قبول ک، یہی وہ چیز ہے جسے معجزہ کہا جاتا ہے۔
جس کا ہونا حق ہے پہلے زمانے میں اموال غنیمت مجاہدین کے لئے حلال نہ تھا بلکہ آسمان سے آگ آتی اوراسے جلادیتی جو عند اللہ قبولیت کی دلیل ہوتی تھی۔
اموال غنیمت میں خیانت کرنا پہلے بھی گناہ عظیم تھا اور اب بھی یہی حکم ہے۔
مگر امت مسلمہ کے لئے اللہ نے اموال غنیمت کو حلال کردیا ہے۔
وہ شریعت کے حکم کے مطابق تقسیم ہوں گے۔
کم طاقتی اور عاجزی سے یہ مراد ہے کہ مسلمان مفلس اور نادار تھے اور خدا کی بارگاہ میں عاجزی اور فروتنی سے حاضر ہوتے تھے پروردگار کو ان کی عاجزی پسند آئی اور یہ سرفرازی ہوئی کہ غنیمت کے مال ان کے لئے حلال کردیئے گئے۔
ہم ان بے وقوف پادریوں سے پوچھتے ہیں جو غنیمت کا مال لینا بڑا عیب جانتے ہیں کہ تمہارے مذہب والے نصاریٰ تو دوسروں کے ملک کے ملک اور خزانے ہضم کرجاتے ہیں۔
ڈکار تک نہیں لیتے۔
جس ملک کو فتح کرتے ہیں وہاں سب معزز کاموں پر اپنی قوم والوں کو مامور کرتے ہیں‘ اہل ملک کا ذرا لحاظ نہیں رکھتے پھر یہ لوٹ نہیں تو کیا ہے۔
لوٹ سے بھی بدتر ہے۔
لوٹ تو گھڑی بھر ہوتی ہے۔
اور ظلمی انتظام تو صدہا برس تک ہوتا رہتا ہے۔
معاذ اللہ! انجیل شریف کی وہی مثال ہے کہ اپنی آنکھ کا تو شہتیر نہیں دیکھتے اور دوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھتے ہیں۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3124   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3124  
3124. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پہلے انبیاء ؑ میں سے ایک نبی نے جہاد کیا، تو انھوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میرے ساتھ وہ شخص نہ جائے جس نے کسی عورت سے نکاح تو کیا ہولیکن ابھی تک رخصتی نہ ہوئی ہو جبکہ وہ رخصتی کا خواہاں ہو۔ اور نہ وہ شخص جائے جس نے گھر کی چار دیواری تو کی ہو لیکن ابھی تک چھت نہ ڈالی ہو۔ اور نہ وہ شخص ہی جائے جس نے حاملہ بکریاں اور اونٹنیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے بچے جننے کا منتظر ہو۔ (یہ کہہ کر) پھر وہ جہاد کے لیے روانہ ہوئے اور ایک گاؤں کے قریب اس وقت پہنچے کہ عصر کا وقت قریب تھا یا ہوچکا تھا۔ انھوں نے آفتاب سے کہا: تو بھی اللہ کا محکوم ہے اور میں بھی اللہ کا تابع فرمان ہوں، پھر یوں دعا کی: اے اللہ! اسے ہمارے لیے غروب ہونے سے روک دے، چنانچہ اسے روک لیا گیا حتیٰ کہ اللہ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3124]
حدیث حاشیہ:

یہ نبی حضرت یوشع بن نون ؑ تھے۔
انھوں نے اللہ کے حضور درخواست کی کہ وہ سورج کو چلنے سے روک دے تاکہ وہ بستی کو فتح کرلیں، چنانچہ وہ رکارہاحتی کہ وہ بستی فتح ہوگئی۔
(فتح الباري: 268/6)
اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ جمعے کا دن تھا۔
اگرسورج نہ رکتا اور غروب ہوجاتا تو ہفتے کا دن شروع ہوجاتا۔
اس دن میں اس کی عظمت کے پیش نظر جنگ کرنا حرام تھا۔
ممکن تھا کہ دشمن کو فوجی مدد پہنچ جاتی اور اسے فتح کرنے میں مشکل پیش آتی۔

پہلے انبیاء ؑ کے لیے مال غنیمت سے متعلق یہ ضابطہ تھا کہ وہ مال غنیمت میدان جنگ میں ایک جگہ جمع کردیتے تھے۔
آسمان سے آگ آتی اور اسے کھا جاتی تھی۔
اگر اس میں کسی نے خیانت کی ہوتی تو اس کو آگ نہ کھاتی تھی، نیز قربانیوں کی قبولیت معلوم کرنے کے لیے بھی یہی قاعدہ تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اس امت پر بہت فضل وکرم فرمایا کہ اس کے لے غنیمتوں کو حلال قراردیا، البتہ مال غنیمت میں خیانت کی سنگینی کو برقراررکھا۔
اس امت کے مسلمانوں کی اللہ کے حضور عاجزی اور مسکینی اس قدر رنگ لائی کہ مال غنیمت ان کے لیے حلال کردیاگیا۔
یہ اس امت کا خاصا ہے جو دوسری امتوں کو نہیں ملا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3124