صحيح البخاري
كِتَاب الْحَيْضِ -- کتاب: حیض کے احکام و مسائل
9. بَابُ غَسْلِ دَمِ الْمَحِيضِ:
باب: حیض کا خون دھونے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 308
حَدَّثَنَا أَصْبَغُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَتْ إِحْدَانَا تَحِيضُ، ثُمَّ تَقْتَرِصُ الدَّمَ مِنْ ثَوْبِهَا عِنْدَ طُهْرِهَا فَتَغْسِلُهُ وَتَنْضَحُ عَلَى سَائِرِهِ، ثُمَّ تُصَلِّي فِيهِ".
ہم سے اصبغ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے عمرو بن حارث نے عبدالرحمٰن بن قاسم کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد قاسم بن محمد سے بیان کیا، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے فرمایا کہ ہمیں حیض آتا تو کپڑے کو پاک کرتے وقت ہم خون کو مل دیتے، پھر اس جگہ کو دھو لیتے اور تمام کپڑے پر پانی بہا دیتے اور اسے پہن کر نماز پڑھتے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:308  
308. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب ہم میں سے کسی کو حیض آتا تو وہ طہر کے وقت اپنے کپڑے سے خون کو چٹکیون سے کھرچ ڈالتی اور اسے دھو ڈالتی، پھر بقیہ کپڑے پر پانی چھڑک دیتی، پھر اس میں نماز پڑھ لیتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:308]
حدیث حاشیہ:

اس عنوان کے تحت جو احادیث بیان ہوئی ہیں، ان میں حیض کے خون کو دھونے کاطریقہ بیان ہوا ہے کہ اس کپڑے کو خون سے پاک کرنے کے لیے مبالغے سے کام لیا جائے۔
وہ اس طرح کہ پہلے تو تھوڑا تھوڑا پانی ڈال کر انگلیوں کے پودوں سے ملا جائے، پھر اسے دھویا جائے، پھر اسی کپڑے میں نماز پڑھنے کی بھی اجازت ہے۔
چٹکیوں سے ملنے کا یہ فائدہ ہے کہ کپڑے کے تاروں میں جو خون پیوست ہوگیا تھا وہ نکل جائے گا۔
مقصد یہ ہے کہ حیض کے خون کو دھوتے وقت خوب مبالغے سے کام لیا جائے۔

امام بخاری ؒ نے کتاب الوضوء میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا:
"باب غسل الدم" جس میں ہر قسم کے خون کو دھونے کا بیان تھا، پھر غسل منی کے متعلق بیان کیا تھا کہ اس کے دھونے میں عام ابتلا کی وجہ سے کچھ تخفیف تھی۔
اس سے شاید کوئی خیال کرتا کہ دم حیض کے دھونے میں بھی تخفیف ہے، لہذا اس خیال کو دور کرنے کے لیے فرمایا:
اسے دھونے کے لیے خصوصی اہتمام کی ضرورت ہے۔
خون حیض کی نجاست پر اجماع ہے اس حدیث کے آخر میں ہے کہ پھر تمام کپڑے پر پانی بہادیا جائے، حافظ ابن حجر ؒ نے اسے دفع وسوسہ کے لیے قراردیا ہے۔
(فتح الباري: 532/1)
اس سے پہلی حدیث میں غسل دم استحاضہ کا بیان تھا، یہاں دم حیض کے متعلق وضاحت فرمائی۔
ان میں فرق واضح کرنے کے لیے ایسا کام کیا ہے کہ دم حیض کومبالغے سے دھویا جائے، جبکہ دم استحاضہ میں زیادہ کاوش کی ضرورت نہیں۔
دوسرا فرق آئندہ باب میں بیان ہوگا کہ حائضہ مسجد میں داخل نہیں ہوسکتی، جبکہ مستحاضہ مسجد میں اعتکاف بھی بیٹھ سکتی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دم استحاضہ کی نجاست دم حیض کے مقابلے میں ذرا خفیف ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 308