صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ -- کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
20. بَابُ مَا يُصِيبُ مِنَ الطَّعَامِ فِي أَرْضِ الْحَرْبِ:
باب: اگر کھانے کی چیزیں کافروں کے ملک میں ہاتھ آ جائیں۔
حدیث نمبر: 3155
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: أَصَابَتْنَا مَجَاعَةٌ لَيَالِيَ خَيْبَرَ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ وَقَعْنَا فِي الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ فَانْتَحَرْنَاهَا فَلَمَّا غَلَتِ الْقُدُورُ نَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَكْفِئُوا الْقُدُورَ فَلَا تَطْعَمُوا مِنْ لُحُومِ الْحُمُرِ شَيْئًا، قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ، فَقُلْنَا:" إِنَّمَا نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَنَّهَا لَمْ تُخَمَّسْ، قَالَ:" وَقَالَ آخَرُونَ حَرَّمَهَا أَلْبَتَّةَ وَسَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، فَقَالَ: حَرَّمَهَا أَلْبَتَّةَ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے بیان کیا، کہا میں نے ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ جنگ خیبر کے موقع پر فاقوں پر فاقے ہونے لگے۔ آخر جس دن خیبر فتح ہوا تو (مال غنیمت میں) گھریلو گدھے بھی ہمیں ملے۔ چنانچہ انہیں ذبح کر کے (پکانا شروع کر دیا گیا) جب ہانڈیوں میں جوش آنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے اعلان کیا کہ ہانڈیوں کو الٹ دو اور گھریلو گدھے کے گوشت میں سے کچھ نہ کھاؤ۔ عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بعض لوگوں نے اس پر کہا کہ غالباً پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے روک دیا ہے کہ ابھی تک اس میں سے خمس نہیں نکالا گیا تھا۔ لیکن بعض دوسرے صحابہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے کا گوشت قطعی طور پر حرام قرار دیا ہے۔ (شیبانی نے بیان کیا کہ) میں نے سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قطعی طور پر حرام کر دیا تھا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3192  
´نیل گائے کے گوشت کا حکم۔`
ابواسحاق شیبانی (سلیمان بن فیروز) کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پالتو گدھوں کے گوشت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: ہم خیبر کے دن بھوک سے دوچار ہوئے، ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، لوگوں کو شہر کے باہر سے کچھ گدھے ملے تو ہم نے انہیں ذبح کیا، ہماری ہانڈیاں جوش مار رہی تھیں کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے آواز لگائی: لوگو! ہانڈیاں الٹ دو، اور گدھوں کے گوشت میں سے کچھ بھی نہ کھاؤ، تو ہم نے ہانڈیاں الٹ دیں۔ ابواسحاق (سلیمانی بن فیروز الشیبانی الکوفی) کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3192]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  گدھے کا گوشت حرام ہے۔

(2)
خیبر میں ان سے ممانعت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جو اس حدیث میں مذکور ہے، تاہم اگلی حدیث میں اشارہ ہے کہ یہ حرمت وقتی نہیں، قطعی ہے۔

(3)
اگر غلطی سے حرام گوشت پکا لیا جائے تو معلوم ہونے پر اسے ضائع کردینا چاہیے۔
واللہ اعلم
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3192   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3155  
3155. حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں خیبر کی راتوں میں فاقوں پر فاقے ہونے لگے۔ آخر جس دن خیبر فتح ہوا تو گھریلو گدھے بھی (بطورغنیمت) ملے، چنانچہ ہم نے انھیں ذبح کرکے پکانا شروع کردیا۔ جب ہانڈیوں میں جوش آنے لگا تو رسول اللہ ﷺ کے منادی نے اعلان کیا کہ ہانڈیوں کو الٹ دو اور گدھوں کے گوشت سے کچھ نہ کھاؤ۔ عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ نے کہا کہ ہمارےخیال کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اس لیے منع فرمایا کہ ان سے ابھی خمس نہیں نکالا گیا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ نبی کریم ﷺ نے قطعی طور پر گدھوں کا گوشت حرام قرار دیا ہے۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نےسعید بن جبیر سے پوچھا تو انھوں نے کہا: آپ ﷺ نے قطعی طور پر اسے حرام کردیاتھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3155]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مجاہدین کو مال غنیمت سے بقدر ضرورت کھانے پینے کی اجازت ہے البتہ گدھوں کے گوشت سے تو ان کی حرمت کی وجہ سے منع فرمایا۔
اس لیے نہیں کہ گوشت کے لیے قبل از وقت اجازت نہیں لی گئی تھی۔

راوی نے حضرت سعید بن جبیر ؓسے اس لیے پوچھا کہ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاص شاگرد تھے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گدھے کے گوشت کی حلت مروی ہے لیکن سعید بن جبیر ؓ کو دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے اس کی حرمت کے متعلق تحقیق ہو گئی تھی اس لیے انھوں نے یقین کے ساتھ اس کی حرمت کا فتوی دیا۔
اب اس کی حرمت میں کسی کو اختلاف نہیں بلکہ تمام اہل علم اس کی تحریم پر متفق ہیں۔

جن اشیاء کا تعلق غذا سے ہے یا جو چیزیں عادت کے طور پر غذا کا فائدہ دیتی ہیں۔
اسی طرح جانوروں کا گھاس اور چاره وغیرہ ان تمام اشیاء کا تقسیم سے پہلے امام وقت کی اجازت کے بغیر لینا جائز ہے جبکہ مقصود ذخیرہ اندوزیاور مالیت بنانا نہ ہو۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3155