صحيح البخاري
كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ -- کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
4. بَابُ مَا أَقْطَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبَحْرَيْنِ، وَمَا وَعَدَ مِنْ مَالِ الْبَحْرَيْنِ وَالْجِزْيَةِ، وَلِمَنْ يُقْسَمُ الْفَيْءُ وَالْجِزْيَةُ؟
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بحرین سے (مجاہدین کو کچھ معاش) دینا اور بحرین کی آمدنی اور جزیہ میں سے کسی کو کچھ دینے کا وعدہ کرنا اس کا بیان اور اس کا کہ جو مال کافروں سے بن لڑے ہاتھ آئے یا جزیہ وہ کن لوگوں کو تقسیم کیا جائے۔
حدیث نمبر: 3165
وَقَالَ: إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ، فَقَالَ: انْثُرُوهُ فِي الْمَسْجِدِ فَكَانَ أَكْثَرَ مَالٍ أُتِيَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ الْعَبَّاسُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْطِنِي إِنِّي فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلًا، قَالَ: خُذْ فَحَثَا فِي ثَوْبِهِ، ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ فَلَمْ يَسْتَطِعْ، فَقَالَ: أمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ إِلَيَّ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَيَّ، قَالَ: لَا، فَنَثَرَ مِنْهُ، ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ فَلَمْ يَرْفَعْهُ، فَقَالَ: فَمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ عَلَيَّ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَيَّ، قَالَ: لَا، فَنَثَرَ مِنْهُ ثُمَّ احْتَمَلَهُ عَلَى كَاهِلِهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ فَمَا زَالَ يُتْبِعُهُ بَصَرَهُ حَتَّى خَفِيَ عَلَيْنَا عَجَبًا مِنْ حِرْصِهِ فَمَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَمَّ مِنْهَا دِرْهَمٌ".
اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بحرین سے خراج کا روپیہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مسجد میں پھیلا دو، بحرین کا وہ مال ان تمام اموال میں سب سے زیادہ تھا جو اب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں آ چکے تھے۔ اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! مجھے بھی عنایت فرمائیے (میں زیر بار ہوں) کیونکہ میں نے (بدر کے موقع پر) اپنا بھی فدیہ ادا کیا تھا اور عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا لے لیجئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے کپڑے میں روپیہ بھر لیا (لیکن اٹھایا نہ جا سکا) تو اس میں سے کم کرنے لگے۔ لیکن کم کرنے کے بعد بھی نہ اٹھ سکا تو عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو حکم دیں کہ اٹھانے میں میری مدد کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، انہوں نے کہا کہ پھر آپ خود ہی اٹھوا دیں۔ فرمایا کہ یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ پھر عباس رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کچھ کم کیا، لیکن اس پر بھی نہ اٹھا سکے تو کہا کہ کسی کو حکم دیجئیے کہ وہ اٹھا دے، فرمایا کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، انہوں نے کہا پھر آپ ہی اٹھا دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ آخر اس میں سے انہیں پھر کم کرنا پڑا اور تب کہیں جا کے اسے اپنے کاندھے پر اٹھا سکے اور لے کر جانے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک انہیں برابر دیکھتے رہے، جب تک وہ ہماری نظروں سے چھپ نہ گئے۔ ان کے حرص پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب فرمایا اور آپ اس وقت تک وہاں سے نہ اٹھے جب تک وہاں ایک درہم بھی باقی رہا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3165  
3165. حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس بحرین سے مال آیا تو آپ نے فرمایا: اسے مسجد میں پھیلادو۔ یہ مال ان اموال میں سے تھا جو کثیر مقدار میں تھا۔ اتنے میں حضرت عباس ؓآگئے اورعرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!مجھے عنائیت فرمائیں کیونکہ میں نےاپنی ذات کا فدیہ ادا کیا تھا اور عقیل کا بھی۔ آپ نے فرمایا: اچھا لے لو۔ چنانچہ انھوں نےاپنے کپڑے میں مال بھر لیا۔ پھر اسے اٹھانا چاہا لیکن نہ اٹھا سکے تو عرض کیا: آپ کسی صحابی کو حکم دیں وہ اٹھا کر میرے اوپر رکھ دے۔ آپ نے فرمایا: یہ نہیں ہوسکتا۔ حضرت عباس ؓنے کہا: پھر آپ ہی اسے اٹھا کر میرے اوپر رکھ دیں تو آپ نے فرمایا: یہ بی نہیں ہوسکتا۔ پھر حضرت عباسؓ نے اس میں سے کچھ کم کردیا۔ پھر اسے اٹھانا چاہالیکن نہ اٹھا سکے۔ انھوں نے عرض کیا: کسی کو کہیں، وہ اٹھا کر میرے اوپر رکھ دے۔ آپ نے فرمایا: ایسا نہیں ہوسکتا۔ عرض کیا: پھر آپ ہی اسے اٹھا کر میرے اوپر رکھ دیں۔ آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3165]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے تیسرے جز کو ثابت کیا ہے کہ مال فے اور جزیے کے متعلق امام وقت کو اختیار ہے کہ اس میں سے جس قدر چاہے، جسے چاہے عطا کرسکتاہے۔
کچھ حضرات کا موقف ہے کہ امام کو چاہیے کہ وہ مال فے یا جزیہ سب میں برابرتقسیم کرے اور کسی کو دوسرے پر فوقیت نہ دے لیکن امام بخاری ؒ فرماتے ہیں:
یہ امام کی صوابدید موقوف ہے کہ وہ تمام مجاہدین کو برابردے یا کسی کو زیادہ دے اور کسی کو کم دے۔
حضرت عباس ؓکے طرزعمل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ امام کو اس کے بارے میں کلی طور پر اختیارات حاصل ہیں کہ وہ برابر برابر تقسیم کرے یا کسی کو دوسرے پر فوقیت دے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3165