3168. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ کو یہ کہتے سنا: جمعرات کا دن، آہ جمعرات کا دن کیسا (ہیبت ناک) تھا پھر ر وپڑے یہاں تک کہ آپ نے آنسوؤں سے کنکریاں ترکردیں۔ میں نے عرض کیا: ابن عباس ؓ! جمعرات کا دن کیساتھا؟ فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی بیماری سنگین ہوگئی تو آپ نے فرمایا: ”میرے پاس شانے کی کوئی ہڈی لاؤ میں تمہارے لیے کچھ تحریر کردوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔“ اس کے بعدلوگ باہم جھگڑنے لگے، حالانکہ نبی کریم ﷺ کے پاس جھگڑنا نہیں چاہیے تھا۔ لوگوں نے کہا: آپ کو کیاہوگیا ہے؟ کیا آپ دنیا سے ہجرت فرمارہے ہیں؟ اچھی طرح آپ کی بات سمجھو۔ آپ نے فرمایا: ”تم مجھے چھوڑ دو، میں جس حال میں ہوں وہ اس حال سے اچھا ہے جس کی طرف تم مجھے بلارہے ہو۔“ پھر آپ نے انھیں تین امور کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا: ”مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ اور دوسرے ممالک سے آنے والے وفد کو عطایا دو، جیسے میں انھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3168]
حدیث حاشیہ: 1۔
پہلی وصیت کا مطلب یہ ہے کہ جزیرہ عرب سے کفار کو نکال دیا جائے۔
وہ اس جگہ رہائش اختیار کرسکتے ہیں نہ انھیں ادھر کا سفر ہی کرنے کی اجازت ہے۔
امام شافعی ؒ کے نزدیک جزیرہ عرب سے مراد مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ اور یمامہ کاعلاقہ ہے۔
ان کے نزدیک یمن اس میں داخل نہیں ہے۔
یہودی بھی ان میں شامل ہیں۔
حضرت عمر ؓنے اپنے دور میں ان سے بھی جزیرہ عرب کو پاک کردیا اور انھیں جلاوطن کردیا تھا۔
2۔
واضح رہے کہ مذکورہ واقعہ جمعرات کے دن کا ہے۔
اس کے بعد آپ پیر تک زندہ رہے۔
ان ایام میں بیماری سے کچھ افاقہ بھی رہا۔
انھی دنوں آپ نے برسرمنبر انصار کے مناقب بیان فرمائے۔
اگر کوئی ضروری قابل تحریری بات ہوتی تو آپ اسے ہر گز نہ چھوڑتے۔
وہ تیسری بات جو راوی بھول گیا وہ درج ذیل باتوں میں سے کوئی ہوسکتی ہے:
۔
قرآن مجید کو مضبوطی سے تھامنا۔
۔
لشکر اسامہ کو روانہ کرنا۔
۔
قبر مبارک کی پوجاپاٹ نہ کرنا۔
واللہ أعلم۔