صحيح البخاري
كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ -- کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
7. بَابُ إِذَا غَدَرَ الْمُشْرِكُونَ بِالْمُسْلِمِينَ هَلْ يُعْفَى عَنْهُمْ؟
باب: اگر کافر مسلمانوں سے دغا کریں تو ان کو معافی دی جا سکتی ہے یا نہیں؟
حدیث نمبر: 3169
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ خَيْبَرُ أُهْدِيَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةٌ فِيهَا سُمٌّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اجْمَعُوا إِلَيَّ مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ يَهُودَ فَجُمِعُوا لَهُ، فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْهُ، فَقَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَبُوكُمْ، قَالُوا: فُلَانٌ، فَقَالَ: كَذَبْتُمْ بَلْ أَبُوكُمْ فُلَانٌ، قَالُوا: صَدَقْتَ، قَالَ: فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُ عَنْهُ؟، فَقَالُوا: نَعَمْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ وَإِنْ كَذَبْنَا عَرَفْتَ كَذِبَنَا كَمَا عَرَفْتَهُ فِي أَبِينَا، فَقَالَ لَهُمْ: مَنْ أَهْلُ النَّارِ، قَالُوا: نَكُونُ فِيهَا يَسِيرًا ثُمَّ تَخْلُفُونَا فِيهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اخْسَئُوا فِيهَا وَاللَّهِ لَا نَخْلُفُكُمْ فِيهَا أَبَدًا، ثُمَّ قَالَ: هَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ؟، فَقَالُوا: نَعَمْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، قَالَ: هَلْ جَعَلْتُمْ فِي هَذِهِ الشَّاةِ سُمًّا؟، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ، قَالُوا: أَرَدْنَا إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا نَسْتَرِيحُ وَإِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب خیبر فتح ہوا تو (یہودیوں کی طرف سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بکری کا یا ایسے گوشت کا ہدیہ پیش کیا گیا جس میں زہر تھا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جتنے یہودی یہاں موجود ہیں انہیں میرے پاس جمع کرو، چنانچہ وہ سب آ گئے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو، میں تم سے ایک بات پوچھوں گا۔ کیا تم لوگ صحیح صحیح جواب دو گے؟ سب نے کہا جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، تمہارے باپ کون تھے؟ انہوں نے کہا کہ فلاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تمہارے باپ تو فلاں تھے۔ سب نے کہا کہ آپ سچ فرماتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میں تم سے ایک اور بات پوچھوں تو تم صحیح واقعہ بیان کر دو گے؟ سب نے کہا جی ہاں، اے ابوالقاسم! اور اگر ہم جھوٹ بھی بولیں گے تو آپ ہماری جھوٹ کو اسی طرح پکڑ لیں گے جس طرح آپ نے ابھی ہمارے باپ کے بارے میں ہمارے جھوٹ کو پکڑ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد دریافت فرمایا کہ دوزخ میں جانے والے کون لوگ ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ کچھ دنوں کے لیے تو ہم اس میں داخل ہو جائیں گے لیکن پھر آپ لوگ ہماری جگہ داخل کر دئیے جائیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس میں برباد رہو، اللہ گواہ ہے کہ ہم تمہاری جگہ اس میں کبھی داخل نہیں کئے جائیں گے۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ اگر میں تم سے کوئی بات پوچھوں تو کیا تم مجھ سے صحیح واقعہ بتا دو گے؟ اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ ہاں! اے ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم نے اس بکری کے گوشت میں زہر ملایا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ جھوٹے ہیں (نبوت میں) تو ہمیں آرام مل جائے گا اور اگر آپ واقعی نبی ہیں تو یہ زہر آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3169  
3169. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے نبی کریم ﷺ کو ایک بکری تحفہ بھیجی، جس میں زہر ملا ہوا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہاں جتنے یہودی ہیں ان سب کو اکھٹا کرو۔ وہ سب آپ کے سامنے اکھٹے کیے گئے۔ پھر آپ نے فرمایا: میں تم سے ایک بات پوچھنے والا ہوں کیا تم سچ سچ بتاؤ گے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تمہارا باپ کون ہے؟ انھوں نے کہا: فلاں شخص! آ پ نے فرمایا: تم نے جھوٹ کہا ہے بلکہ تمہارا باپ فلاں شخص ہے۔ انھوں نے کہا: بلاشبہ آپ سچ کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اچھا اب اگر تم سے کچھ پوچھوں تو سچ بتاؤ گے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں ابوالقاسم! اگر ہم نے جھوٹ بولا تو آپ ہمارا جھوٹ پہچان لیں گےجیسا کہ پہلے آپ نے ہمارے باپ کے متعلق ہمارا جھوٹ معلوم کرلیا ہے۔ پھر آپ نے ان سے پوچھا: دوزخی کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: ہم چند روز کے لیے دوزخ میں جائیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3169]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آپ ﷺ نے اس یہودی عورت زینب بنت حارث نامی کو جس نے زہر ملایا تھا کچھ سزا نہ دی، بلکہ معاف کردیا، مگر جب بشر بن براءصحابی ؓ جنہوں نے اس گوشت میں سے کچھ کھالیا تھا، مرگئے تو آپ نے ان کا قصاص لیا، اور اس عورت کو قتل کرادیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3169   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3169  
3169. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے نبی کریم ﷺ کو ایک بکری تحفہ بھیجی، جس میں زہر ملا ہوا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہاں جتنے یہودی ہیں ان سب کو اکھٹا کرو۔ وہ سب آپ کے سامنے اکھٹے کیے گئے۔ پھر آپ نے فرمایا: میں تم سے ایک بات پوچھنے والا ہوں کیا تم سچ سچ بتاؤ گے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تمہارا باپ کون ہے؟ انھوں نے کہا: فلاں شخص! آ پ نے فرمایا: تم نے جھوٹ کہا ہے بلکہ تمہارا باپ فلاں شخص ہے۔ انھوں نے کہا: بلاشبہ آپ سچ کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اچھا اب اگر تم سے کچھ پوچھوں تو سچ بتاؤ گے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں ابوالقاسم! اگر ہم نے جھوٹ بولا تو آپ ہمارا جھوٹ پہچان لیں گےجیسا کہ پہلے آپ نے ہمارے باپ کے متعلق ہمارا جھوٹ معلوم کرلیا ہے۔ پھر آپ نے ان سے پوچھا: دوزخی کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: ہم چند روز کے لیے دوزخ میں جائیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3169]
حدیث حاشیہ:

خیبر کے یہودیوں نے رسول اللہ ﷺکے خلاف یہ ناپاک منصوبہ بنایا اور اسے ایک عورت کے ہاتھوں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
وہ عورت مرحب یہودی کی بہن تھی جس کانام زینب بنت حارث تھا۔
یہودیوں کی طرف سے یہ غداری تھی کہ انھوں نے ایک یہودیہ کو آلہ کار بنا کررسول اللہ ﷺ کوزہریلا گوشت پیش کیا۔
آپ نے کسی مصلحت کی بنا پر انھیں معاف کردیا۔
ایک روایت کے مطابق ایک صحابی بشر بن براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس زہریلے گوشت سے فوت ہوگئے تھے تو آپ نے وہ عورت ان کے لواحقین کے حوالے کردی، انھوں نےاسے قصاصاً قتل کردیا۔
(سنن أبي داود، الدیات، حدیث: 4512 و الطبقات الکبریٰ لابن سعد: 202/2)
چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس یہودی عورت کو قتل کرنے کی اجازت مانگی جس نے بکری میں زہرملایاتھا تو آپ نے اجازت نہ دی بلکہ آپ نے معاف کردیا۔
(صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5706(2190)
لہذا یہ صحیح ہے کہ اس موقع پر آپ نے اسے معاف کردیا اور بعد میں جب آپ کو علم ہوا کہ بشر اس زہر کی وجہ سے وفات پاگئے ہیں تو قصاصاً اسے قتل کروادیاتھا۔
واللہ أعلم۔

اس حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
ہم کبھی دوزخ میں تمہارے جانشیں نہیں بنیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہ گار مسلمان تو جہنم میں جائیں گے لیکن انھیں بالآخر نکال لیا جائے گا، البتہ یہودی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے، یعنی خلود اور عدم خلود کی وجہ سے متفرق ہوجائیں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3169