صحيح البخاري
كِتَاب الْحَيْضِ -- کتاب: حیض کے احکام و مسائل
10. بَابُ الاِعْتِكَافِ لِلْمُسْتَحَاضَةِ:
باب: عورت کے لیے استحاضہ کی حالت میں اعتکاف۔
حدیث نمبر: 311
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ،" أَنَّ بَعْضَ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ اعْتَكَفَتْ وَهِيَ مُسْتَحَاضَةٌ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے خالد کے واسطہ سے بیان کیا، وہ عکرمہ سے وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ بعض امہات المؤمنین نے اعتکاف کیا حالانکہ وہ مستحاضہ تھیں۔ (اوپر والی روایت میں ان ہی کا ذکر ہے)۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2476  
´مستحاضہ عورت اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی بیویوں میں سے کسی نے اعتکاف کیا وہ (خون میں) پیلا پن اور سرخی دیکھتیں (یعنی انہیں استحاضہ کا خون جاری رہتا) تو بسا اوقات ہم ان کے نیچے (خون کے لیے) بڑا برتن رکھ دیتے اور وہ حالت نماز میں ہوتیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2476]
فوائد ومسائل:
(1) استحاضہ کے ایام حکما پاکیزگی کے دن ہوتے ہیں اور ان میں نماز، روزہ اور اعتکاف وغیرہ سب امور صحیح ہیں مگر لازمی ہے کہ مسجد کو آلودہ ہونے سے بچایا جائے۔

(2) اس پر قیاس کرتے ہوئے دائم الحدث (جس کا وضو برقرار نہ رہتا ہو) کا بھی یہی حکم ہو گا۔
یعنی حدث کی حالت میں اس کے لیے نماز پڑھنا جائز ہو گا، اور وہ شخص بھی اسی حکم میں ہو گا جس کے زخم سے خون رس رہا ہو۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2476   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:311  
311. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے کہ امہات المومنین میں سے کسی ایک نے استحاضے کی حالت میں اعتکاف کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:311]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے بعینہ یہی عنوان کتاب الاعتکاف میں بھی قائم کیا ہے اور اس کے تحت حدیث (310)
کو بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الاعتکاف، حدیث: 2037)
اس مقام پر ان کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ حیض کی وجہ سے جوامور ممنوع تھے، مثلاً:
مسجد میں داخل ہونا اور نماز پڑھنا وغیرہ، استحاضے کی وجہ سے ان کی ممانعت نہیں ہے، صرف اعتکاف بیٹھنے کی صورت میں مسجد کے تقدس کے پیش نظر اتنی احتیاط کی ضرورت ہے کہ اس کی تلویث وغیرہ نہ ہو۔
اس کے لیے کوئی خاص اہتمام کرنا ہوگا۔
جیسا کہ زوجہ محترمہ نے اپنے نیچے طشت رکھنے کا بندوبست کیا تھا۔

امام ابن جوزی ؒ نے لکھا ہے کہ ہماری معلومات کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی کسی بیوی کو استحاضے کا عارضہ لا حق نہیں تھا۔
حضرت عائشہ ؓ کے فرمان سے مراد رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین سے کوئی تعلق رکھنے والی ہے اور وہ ام حبیبہ ؓ بنت جحش ہے جو زوجہ محترمہ حضرت زینب بنت جحش کی بہن ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ روایت (310)
میں صراحت ہے کہ وہ آپ کی بیویوں میں سے کوئی عورت تھی، بلکہ حدیث (311)
میں اس سے بڑھ کر وضاحت ہے کہ وہ امہات المومنین میں سے کوئی ایک تھی۔
یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ کوئی غیر عورت رسول اللہ ﷺ کے ہمرا اعتکاف بیٹھی ہو، اگرچہ آپ کے ساتھ اس کاتعلق ہی کیوں نہ ہو۔
سنن سعید بن منصور میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اعتکاف بیٹھنے والی ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ تھیں۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ یا حضرت رملہ ام حبیبہ ؓ بنت ابی سفیان تھیں۔
(فتح الباري: 534/1)

رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں جن عورتوں کو استحاضے کا عارضہ تھا ان کی تفصیل حسب ذیل ہے: 1۔
حضرت ام المومنین ام سلمہ ؓ ۔

حضرت ام المومنین ام حبیبہ ؓ ۔

حضرت ام المومنین زینب بن جحش ؓ۔

حضرت ام المومنین سودہ بنت زمعہ ؓ ۔

ام زوجہ عبدالرحمان بن عوف ؓ۔

حضرت حمنہ بنت جحش زوجہ طلحہ ؓ 7۔
اسماء بنت رشد ؓ۔

بادیہ بنت غیلان ؓ ۔

فاطمہ بن ابی حبیش ؓ ۔
10۔
سہلہ بنت سہیل ؓ ۔
(عمدة القاري: 127/3)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مستحاضہ مسجد میں ٹھہر سکتی ہے، لیکن حائضہ کے لیے مسجد میں داخل ہوناممنوع ہے، نیزمستحاضہ کااعتکاف اور نماز وغیرہ صحیح ہے۔
مندرجہ ذیل خواتین وحضرات کا مستحاضہ جیسا حکم ہے۔
۔
جسےپیشاب کے قطرے آتے ہوں۔
۔
مرض جریان ہو۔
۔
ہوا خارج ہوتی رہتی ہو۔
۔
سیلان رحم کا عارضہ ہو۔
جس کے زخموں سے خون رستا رہے۔
اعتکاف کے متعلقہ مسائل کتاب الاعتکاف میں بیان ہوں گے۔
بإذن اللہ۔

حضرت عائشہ ؓ نے کسی تقریب میں شرکت کی، وہاں کسم کا رنگین پانی دیکھاتو فرمایا:
یہ ایسے رنگ کا پانی ہے جیسا کہ فلاں عورت استحاضے کے وقت دیکھتی تھی۔
خون استحاضہ کا رنگ ہلکا اور قوام رقیق ہوتا ہے، جبکہ حیض کے خون کا رنگ گہرا تیز اور قوام گاڑھا ہوتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 311