صحيح البخاري
كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ -- کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
12. بَابُ الْمُوَادَعَةِ وَالْمُصَالَحَةِ مَعَ الْمُشْرِكِينَ بِالْمَالِ وَغَيْرِهِ، وَإِثْمِ مَنْ لَمْ يَفِ بِالْعَهْدِ:
باب: مشرکوں سے مال وغیرہ پر صلح کرنا، لڑائی چھوڑ دینا، اور جو کوئی عہد پورا نہ کرے اس کا گناہ۔
وَقَوْلِهِ: {وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا} الآيَةَ.
‏‏‏‏ اور (سورۃ الانفال میں) اللہ کا یہ فرمانا «وإن جنحوا للسلم فاجنح لها‏» اگر کافر صلح کی طرف جھکیں تو تو بھی صلح کی طرف جھک جا۔ اخیر آیت تک۔
حدیث نمبر: 3173
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ هُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: انْطَلَقَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ ومُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ إِلَى خَيْبَرَ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ فَتَفَرَّقَا، فَأَتَى مُحَيِّصَةُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ وَهُوَ يَتَشَحَّطُ فِي دَمٍ قَتِيلًا فَدَفَنَهُ ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَانْطَلَقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَمُحَيِّصَةُ وَحُوَيِّصَةُ ابْنَا مَسْعُودٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ: كَبِّرْ كَبِّرْ وَهُوَ أَحْدَثُ الْقَوْمِ فَسَكَتَ فَتَكَلَّمَا، فَقَالَ:" أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ أَوْ صَاحِبَكُمْ، قَالُوا: وَكَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ وَلَمْ نَرَ، قَالَ: فَتُبْرِيكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ، فَقَالُوا: كَيْفَ نَأْخُذُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ فَعَقَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے بشیر بن یسار نے اور ان سے سہل بن ابی حثمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی اللہ عنہما خیبر گئے۔ ان دنوں (خیبر کے یہودیوں سے مسلمانوں کی) صلح تھی۔ پھر دونوں حضرات (خیبر پہنچ کر اپنے اپنے کام کے لیے) جدا ہو گئے۔ اس کے بعد محیصہ رضی اللہ عنہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ خون میں لوٹ رہے ہیں۔ کسی نے ان کو قتل کر ڈالا، خیر محیصہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دفن کر دیا۔ پھر مدینہ آئے، اس کے بعد عبدالرحمٰن بن سہل (عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بھائی) اور مسعود کے دونوں صاحبزادے محیصہ اور حویصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، گفتگو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے شروع کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ جو تم لوگوں میں عمر میں بڑے ہوں وہ بات کریں۔ عبدالرحمٰن سب سے کم عمر تھے، وہ چپ ہو گئے۔ اور محیصہ اور حویصہ نے بات شروع کی۔ آپ نے دریافت کیا، کیا تم لوگ اس پر قسم کھا سکتے ہو، کہ جس شخص کو تم قاتل کہہ رہے ہو اس پر تمہارا حق ثابت ہو سکے۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہم ایک ایسے معاملے میں کس طرح قسم کھا سکتے ہیں جس کو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر کیا یہود تمہارے دعوے سے اپنی برات اپنی طرف سے پچاس قسمیں کھا کر کے کر دیں؟ ان لوگوں نے عرض کیا کہ کفار کی قسموں کا ہم کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے پاس سے ان کو دیت ادا کر دی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2677  
´قسامہ کا بیان۔`
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہما دونوں محتاجی کی وجہ سے جو ان کو لاحق تھی (روزگار کی تلاش میں) اس یہودی بستی خیبر کی طرف نکلے، محیصہ رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ قتل کر دئیے گئے ہیں، اور انہیں خیبر کے ایک گڑھے یا چشمے میں ڈال دیا گیا ہے، وہ یہودیوں کے پاس گئے، اور کہا: اللہ کی قسم، تم لوگوں نے ہی ان (عبداللہ بن سہل) کو قتل کیا ہے، وہ قسم کھا کر کہنے لگے کہ ہم نے ان کا قتل نہیں کیا ہے، اس کے بعد محیصہ رضی اللہ عنہ خیبر سے واپس اپنی قوم کے پاس پہنچے، اور ان سے اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2677]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
جب کوئی شخص قتل ہوجائے اور اس کے قاتلوں کا پتہ نہ چلے تو مدعی قبیلے کے پچاس آدمی مشکوک افراد کے بارے میں قسم کھائیں کہ یہ ہمارے قاتل ہیں۔
اگر وہ قسم کھالیں تو مدعا علیہم سے دیت دلوائی جائے گی۔
اگر یہ لوگ قسم نہ کھائیں تو مدعا علیہم میں سے پچاس آدمی یہ قسم کھائیں گے کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا، نہ ہم قاتل کو جانتے ہیں۔
اگر وہ قسم کھانے سے انکار کریں تو ان پر ضروری ہوگا کہ قاتل کو پیش کریں اور اگر وہ قسم کھا لیں تو وہ بری ہوجائیں گے اور ان سے دیت وصول نہیں کی جائے گی۔
اس صورت میں دیت بیت المال سے ادا کی جائے گی۔

(2)
قسم کھانےوالوں میں کوئی بچہ، عورت، غلام یا مجنون شامل نہیں ہونا چاہیے۔
اگر پچاس افراد کی تعداد مکمل نہ ہوسکے تو جتنے افراد موجود ہیں وہی پچاس قسموں کی تعداد پوری کریں۔ (حاشیة سنن ابن ماجة از محمد فؤاد عبدالباقی)

(3)
اہم معاملات میں بزرگوں کوبات کرنی چاہیے، نیز بزرگوں کو موجودگی میں نوجوانوں کو بات کرنے میں پہل نہیں کرنی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2677   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1020  
´دعویٰ خون اور قسامت`
سیدنا سہل بن ابی حثمہ نے اپنی قوم کے بڑے بزرگوں سے روایت بیان کی ہے کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اپنی تنگ دستی کی وجہ سے خیبر کی طرف نکلے۔ پس محیصہ نے آ کر اطلاع دی کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اور اسے ایک چشمہ میں پھینک دیا گیا ہے۔ محیصہ رضی اللہ عنہ یہود کے پاس آئے اور کہا کہ خدا کی قسم تم لوگوں نے اسے قتل کیا ہے۔ وہ بولے اللہ کی قسم ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ پھر محیصہ اور اس کا بھائی حویصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہم تینوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پہنچے اور محیصہ نے گفتگو کرنی چاہی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑے کو بات کرنے دو بڑے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد تھی جو تم میں عمر میں بڑا ہے (اسے بات کرنی چاہیئے) چنانچہ حویصہ رضی اللہ عنہ نے بیان دیا پھر محیصہ بولا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ یا تو تمہارے صاحب و ساتھی کی دیت ادا کریں گے یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ پھر اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خط تحریر فرمایا جس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ اللہ کی قسم ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل (رضی اللہ عنہم) سے فرمایا کیا تم لوگ قسم کھا کر اپنے صاحب کے خون کے حقدار بنو گے؟ انہوں نے جواب دیا۔ نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم کو یہودی قسم دیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ تو مسلمان نہیں ہیں (اس لئے ان کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں) پس پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت اپنے پاس (بیت المال) سے دی اور ان کو سو اونٹنیاں بھیج دیں۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ان میں سے ایک سرخ رنگ کی اونٹنی نے مجھے لات ماری۔ (بخاری و مسلم)۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1020»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأحكام، باب كتاب الحاكم إلي عماله والقاضي إلي أمنائه، حديث:7192، ومسلم، القسامة والمحاربين....، باب القسامة، حديث:1669.»
تشریح:
1. اس حدیث سے قسامت کا ثبوت ملتا ہے۔
2.قسامت یہ ہے کہ قاتل کا کسی طرح پتہ نہ چلنے کی وجہ سے مشتبہ اشخاص سے قسم لی جائے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا اور انھیں اس کے قاتل کا علم بھی نہیں۔
3. یہ طریقہ دور جاہلیت میں بھی تھا‘ اسلام نے اسے جائز رکھا۔
4. اس میں پچاس آدمیوں کی قسمیہ شہادت ہوتی ہے کہ ہم نے یا ہمارے قبیلے نے یا ہمارے گاؤں کے لوگوں نے اسے قتل نہیں کیا۔
5. معلوم رہے کہ یہ قسم صرف خون کے مقدمے میں ہوتی ہے‘ باقی حدود کے مقدمات میں ایسی قسمیہ شہادت قبول نہیں ہوتی۔
6. قسامت میں اگر مقتول کے اولیاء و ورثاء ثبوت پیش کردیں یا عدم ثبوت کی صورت میں قسم دے دیں کہ ہمارے مقتول کے قاتل یہی ہیں تو مدعا علیہ پر دیت لازم ہو جاتی ہے۔
اگر مدعی ان دونوں باتوں سے قاصر ہوں اور مدعا علیہ یا مدعا علیہم پچاس قسمیں دے دیں تو وہ بری ہو جاتے ہیں۔
7.قسمیں ان حضرات کی تسلیم ہوں گی جن کو مدعی منتخب کرے۔
8. اس حدیث سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ اجتماعی معاملات کی بابت عمررسیدہ کو بات پہلے کرنی چاہیے۔
9. قسامت والے معاملے میں پہلے قسم مقتول کے اولیاء کے ذمے ہوگی‘ اگر وہ گریز اور اعراض کریں تو پھر جن پر دعویٰ دائر کیا گیا ہے وہ قسم کھا لیں گے اور بری ہو جائیں گے اور ان پر کسی قسم کی کوئی چیز عائد نہیں ہوگی اور اگر قسمیں نہیں کھائیں گے تو ان پر دیت لازم ہو گی۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ عبداللہ بن سہل بن زید بن کعب بن عامر انصاری حارثی۔
خیبر میں قتل کیے گئے اور ایک چشمہ میں پائے گئے کہ ان کی گردن توڑ دی گئی تھی۔
«حضرت مُحَیِّصہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابوسعید محیصہ بن مسعود بن کعب حارثی انصاری مدنی۔
عبداللہ بن سہل مقتول کے چچا زاد بھائی تھے۔
مشہور و معروف صحابی ہیں۔
ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا۔
احد و خندق کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فدک کی طرف بھیجا تھا تاکہ اہل فدک کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔
«حضرت حُوَیِّصَہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ محیصہ کے سگے بڑے بھائی ہیں۔
۳ ہجری میں اسلام قبول کیا۔
اُحد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔
«حضرت عبدالرحمن بن سہل رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ یہ عبداللہ بن سہل کے بھائی تھے۔
ان کی والدہ کا نام لیلیٰ بنت نافع بن عامر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ بدر و احد اور باقی تمام غزوات میں شریک رہے۔
یہ وہ صاحب تھے جنھیں سانپ نے ڈس لیا تھا۔
حضرت عُمارہ بن حزم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق انھیں جھاڑ پھونک کی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اصابہ میں اس کی بابت تردد کا اظہار کیا ہے اور اسے بعید تصور کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1020   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1638  
´ایک شخص کو کتنی زکاۃ دی جائے؟`
بشیر بن یسار کہتے ہیں کہ انصار کے ایک آدمی نے انہیں خبر دی جس کا نام سہل بن ابی حثمہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقے کے اونٹوں میں سے سو اونٹ ان کو دیت کے دیئے یعنی اس انصاری کی دیت جو خیبر میں قتل کیا گیا تھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1638]
1638. اردو حاشیہ: اس کی تفصیل آگے (باب القسامۃ) میں آئے گی۔کہ عبد اللہ بن سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ خیبر میں قتل کردیئے گئے تھے۔تورسول اللہ ﷺ نے ان کی دیت ادافرمائی تھی۔اس سے استدلال یہ ہے کہ امیر یا صاحب صدقہ کو رخصت ہے کہ مستحقین کو صدقہ کے مال سے اتنا وے سکتے ہیں کہ حقدار کا حق پوراادا ہوجائے اور محتاج غنی ہوجائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1638   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3173  
3173. حضرت سہل بن ابی حثمہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید ؓخیبر کی طرف گئے جبکہ ان دنوں یہودیوں سے صلح تھی۔ وہاں پہنچ کر دونوں جداجدا ہوگئے، پھر جب محیصہؓحضرت عبداللہ بن سہل ؓ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ ا پنے خون میں لت پت ہے، کسی نے ان کو قتل کرڈالا ہے۔ خیر محیصہ ؓ نے انھیں دفن کردیا۔ اسکے بعد وہ مدینہ طیبہ آئے تو عبدالرحمان بن سہل اور محیصہ، حویصہ جو مسعود کے بیٹے تھے نبی کریم ﷺ کے پاس گئے۔ عبدالرحمان نے بات کرنا چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا: بڑے کو بات کرنے دو۔ چونکہ وہ سب سے چھوٹے تھے، اس لیے خاموش ہو گئے۔ تب حویصہ اور محیصہ نے گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا: تم قسم اٹھا کر قاتل یا ا پنے ساتھی کے خون کا استحقاق ثابت کرو گے؟ انھوں نے عرض کیا: ہم کیونکر قسم اٹھا سکتے ہیں جبکہ ہم وہاں موجود نہ تھے اور نہ ہم نہ انھیں دیکھا ہی ہےآپ نے فرمایا: پھر یہودی پچاس قسمیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3173]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آنحضرت ﷺنے اپنے پاس سے دیت ادا کرکے خیبر کے یہودیوں سے صلح قائم رکھی، باب کا یہ ترجمہ جو کوئی عہد کو پورا نہ کرے اس کا گناہ حدیث سے نہیں نکلتا۔
شاید حضرت امام بخاری ؒ کو اس باب میں کوئی حدیث لکھنی منظور تھی اتفاق نہ ہوا یا اس مضمون کی حدیث ان کو ان کی شرط کے مطابق نہ ملی۔
قاتل پر حق ثابت ہونے سے مقتول کے آدمیوں کو دیت دینی ہوگی۔
وہ قاتل اگر قتل کا اقرار کرلے تو قصاص بھی لیا جاسکتاہے۔
یہ قسامت کی صورت ہے۔
اس میں مدعی سے پچاس قسمیں لی جاتی ہیں کہ میرا گمان فلاں شخص پر ہے کہ اسی نے مارا ہے۔
اس سے آنحضرت ﷺکی صلح جوئی، امن پسند پالیسی، فراخدلی بھی ثابت ہوئی، باوجودیکہ مقتول ایک مسلمان تھا جو یہود کے ماحول میں قتل ہوا، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی اس حرکت کو نظرانداز فرمادیا، تاکہ امن کی فضا قائم رہے۔
اور کوئی طویل فساد نہ کھڑا ہوجائے، آپ نے مسلمان مقتول کے وارثوں کو خود بیت المال سے دیت ادا فرمادی، ایسے واقعات سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہئے جو اسلام کو بزور تلوار پھیلانے کا غلط پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔
مذاہب کی دنیا میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو بنی نوع انسان کو زیادہ سے زیادہ امن دینے کا حامی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3173   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3173  
3173. حضرت سہل بن ابی حثمہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید ؓخیبر کی طرف گئے جبکہ ان دنوں یہودیوں سے صلح تھی۔ وہاں پہنچ کر دونوں جداجدا ہوگئے، پھر جب محیصہؓحضرت عبداللہ بن سہل ؓ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ ا پنے خون میں لت پت ہے، کسی نے ان کو قتل کرڈالا ہے۔ خیر محیصہ ؓ نے انھیں دفن کردیا۔ اسکے بعد وہ مدینہ طیبہ آئے تو عبدالرحمان بن سہل اور محیصہ، حویصہ جو مسعود کے بیٹے تھے نبی کریم ﷺ کے پاس گئے۔ عبدالرحمان نے بات کرنا چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا: بڑے کو بات کرنے دو۔ چونکہ وہ سب سے چھوٹے تھے، اس لیے خاموش ہو گئے۔ تب حویصہ اور محیصہ نے گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا: تم قسم اٹھا کر قاتل یا ا پنے ساتھی کے خون کا استحقاق ثابت کرو گے؟ انھوں نے عرض کیا: ہم کیونکر قسم اٹھا سکتے ہیں جبکہ ہم وہاں موجود نہ تھے اور نہ ہم نہ انھیں دیکھا ہی ہےآپ نے فرمایا: پھر یہودی پچاس قسمیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3173]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺنے اپنی طرف سے مقتول کے ورثاء کو خون بہادے کر خیبر کے یہودیوں سے صلح برقرار رکھی۔
اگرمال دے کسی مصلحت کی بنا پر سابقہ صلح کو برقرار رکھا جاسکتا ہے تو بوقت ضرورت مال دے کر کفار سے صلح بھی کی جاسکتی ہے۔

مشرکین وکفار کو مال دے کر صلح کرنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس صلح میں مسلمانوں کے لیے بہتری ہو۔
اگراس کے برعکس کفار سے مال لے کر صلح کی جائے تووہ مال جزیے کے مصارف میں خرچ کیا جائے۔
امام بخاری ؒ نے اپنی عادت کے مطابق دیگرمقامات پر ذکر کردہ احادیث سے بدعہدی وغیرہ کی سنگینی کو ثابت کیا ہے۔
عنوان سے ان احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔

اس حدیث سے رسول اللہ ﷺکی امن پسندی، فراخدلی اور صلح جوئی ثابت ہوتی ہے، باوجود یہ کہ مقتول ایک مسلمان تھا جویہودیوں کے علاقے میں قتل ہوا مگررسول اللہﷺنے ان کی حرکت کو نظر انداز کردیا تاکہ امن کی فضا قائم رہے اور کوئی فساد نہ کھڑا ہوجائے۔
جب فریقین کی بات فیصلہ کن مراحل میں پہنچتی نظر نہ آئی تو آپ نے مقتول کے مسلمان ورثاء کو خود بیت المال سے دیت ادا کردی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3173