صحيح البخاري
كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ -- کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
13. بَابُ فَضْلِ الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ:
باب: عہد پورا کرنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 3174
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبِ بْنِ أُمَيَّةَ، أَخْبَرَهُ:" أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَكْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ كَانُوا تِجَارًا بِالشَّأْمِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي مَادَّ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا سُفْيَانَ فِي كُفَّارِ قُرَيْشٍ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی، اور انہیں ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ہرقل (فرمانروائے روم) نے انہیں قریش کے قافلے کے ساتھ بلا بھیجا (یہ لوگ شام اس زمانے میں تجارت کی غرض سے گئے ہوئے تھے۔) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان سے (صلح حدیبیہ میں) قریش کے کافروں کے مقدمہ میں صلح کی تھی۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2978  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ایک مہینے کی راہ سے اللہ نے میرا رعب (کافروں کے دلوں میں) ڈال کر میری مدد کی ہے`
«. . . أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ، أَخْبَرَهُ:" أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ، ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ، فَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا، فَقُلْتُ: لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ . . .»
. . . ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک جب شاہ روم ہرقل کو ملا تو) اس نے اپنا آدمی انہیں تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ لوگ اس وقت ایلیاء میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آخر (طویل گفتگو کے بعد) اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک منگوایا۔ جب وہ پڑھا جا چکا تو اس کے دربار میں ہنگامہ برپا ہو گیا (چاروں طرف سے) آواز بلند ہونے لگی۔ اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ جب ہم باہر کر دئیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ (مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے) کا معاملہ تو اب بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرنے لگا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2978]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2978 کا باب: «بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہوگی کہ لفظی مطابقت کے لحاظ سے ابوسفیان رحمہ اللہ کا فرمان: «إنه يخافه ملك بني الأصفر» کہ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرتے ہیں، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«موضع الترجمة من خبر أبى سفيان قوله: يخافه ملك بني الأصفر [المستواري، ص: 167]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والغرض منه هنا قوله: إنه يخاف ملك بني الأصفر [فتح الباري، ج 6، ص: 159]
یعنی ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈرنا، یہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو ہے، مزید اگر غور کیا جائے تو یہ لوگ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک دیا گیا تھا وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوسوں دور تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لانه كان بين المدينة و بين المكان الذى كان قيصر ينزل فيه مدة شهر أو نحوه.» [فتح الباري، ج 6، ص: 159]
یقینا مدینے اور وہ جگہ جہاں قیصر ہے دونوں میں ایک ماہ یا کچھ لگ بھگ کی مسافت ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
شام اور حجاز کے درمیان ایک ماہ یا اس سے زائد مسافت ہے۔ [عمدة القاري، ج 14، ص: 236]
بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة حديث أبى سفيان للترجمة قوله انه ليخافه ملك بني الأصفر صفود كان بالشام، و بين الشام و الحجاز مسيرة شهر.» [مناسبات تراجم البخاري، ص: 88]
ابوسفیان رحمہ اللہ کی حدیث میں ترجمۃ الباب سے مطابقت یہ ہے کہ ابوسفیان رحمہ اللہ نے فرمایا: «انه ليخافه ملك بني الأصفر» اور وہ شام میں تھے، شام اور حجاز کے درمیان ایک مہینے کی مسافت ہے۔
فائدہ:
ہم یہاں پر عرب کا نقشہ واضح کر رہے ہیں، نقشہ کو دیکھ کر آپ مسافت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 434   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3174  
3174. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انھیں ابوسفیان بن حرب ؓ نےبتایا کہ انھیں ہرقل نے قافلہ قریش کے ہمراہ بلا بھیجا۔ یہ لوگ اس وقت شام کے علاقے میں بغرض تجارت گئے ہوئےتھے جب رسول اللہ ﷺ نے کفار قریش کے ہمراہ ابو سفیان سے صلح کررکھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3174]
حدیث حاشیہ:
یعنی صلح حدیبیہ جو6ھ میں ہوئی، یہ حدیث مفصل گزرچکی ہے۔
اس میں یہ بیان ہے کہ ہرقل نے کہا کہ پیغمبر دغا یعنی عہد شکنی نہیں کرتے، اسی سے امام بخاری نے باب کا مطلب نکالا کہ عہد کا پورا کرنا انبیاءکی خصلت ہے جو بڑی فضیلت رکھتی ہے اور عہد توڑنا دغابازی کرنا ہر شریعت میں منع ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3174   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3174  
3174. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انھیں ابوسفیان بن حرب ؓ نےبتایا کہ انھیں ہرقل نے قافلہ قریش کے ہمراہ بلا بھیجا۔ یہ لوگ اس وقت شام کے علاقے میں بغرض تجارت گئے ہوئےتھے جب رسول اللہ ﷺ نے کفار قریش کے ہمراہ ابو سفیان سے صلح کررکھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3174]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے صلح حدیبیہ کے وقت کفار قریش سے دس سال تک جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا۔
اس دوران میں ابوسفیان قریشی قافلے کے ہمراہ شام کے علاقے میں گئے ہوئے تھے۔

تفصیلی روایت میں ہرقل کا یہ قول مذکور ہے۔
پیغمبر عہد شکنی نہیں کرتے۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے وعدہ پوراکرنے کی فضیلت ثابت کی ہے کہ عہد کا پوراکرنا حضرات انبیاء ؑ کی خصلت ہے اور عہد شکنی ہرامت میں قبیح اور مذموم رہی ہے اور انبیائے كرام ؑ سابقین نے اس سے منع کیا ہے۔
دغا بازی اور عہد شکنی رسولوں کی صفات سے نہیں کیونکہ وہ تو ہمیشہ عہد کی پاسداری کرتے اور اسے اچھی نظر سے دیکھتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3174