صحيح البخاري
كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ -- کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
18. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3182
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِيهِ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو وَائِلٍ، قَالَ: كُنَّا بِصِفِّينَ، فَقَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ فَإِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ؟ فَقَالَ:" بَلَى، فَقَالَ: أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ، قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَعَلَي مَا نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا أَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا فَانْطَلَقَ عُمَرُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُمَرَ إِلَى آخِرِهَا، فَقَالَ: عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَفَتْحٌ هُوَ، قَالَ: نَعَمْ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے، ان سے یزید بن عبدالعزیز نے، ان سے ان کے باپ عبدالعزیز بن سیاہ نے، ان سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابووائل نے بیان کیا کہ ہم مقام صفین میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ پھر سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو! تم خود اپنی رائے کو غلط سمجھو۔ ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اگر ہمیں لڑنا ہوتا تو اس وقت ضرور لڑتے۔ عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر آئے (یعنی حدیبیہ میں) اور عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ کیوں نہیں! پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں؟ کیا ہم (مدینہ) واپس چلے جائیں گے، اور ہمارے اور ان کے درمیان اللہ کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی برباد نہیں کرے گا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے وہی سوالات کئے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابھی کر چکے تھے۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ انہیں کبھی برباد نہیں ہونے دے گا۔ پھر سورۃ فتح نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو اسے آخر تک پڑھ کر سنایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیا یہی فتح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! بلا شک یہی فتح ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3182  
3182. حضرت ابو وائل ٍؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم مقام صفین میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے کہ حضر ت سہل بن حنیفؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا: لوگو! تم خود اپنی رائے کو غلط خیال نہ کرو۔ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ مقام حدیبیہ میں تھے، اگرہمیں لڑنا ہوتا تو اس وقت ضرور لڑتے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں! آیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں! عرض کیا: پھر ہم اپنے دین کے معاملے میں کس کے لیے کمزوری کا اظہار کررہے ہیں؟ کیا ہم واپس چلے جائیں گے، ہمارے اور ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ نہیں کرے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اےابن خطاب! میں اللہ کا رسول ﷺ ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ حضرت عمرؓ وہاں سے چلے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3182]
حدیث حاشیہ:
حضرت سہل بن حنیف ؓ لڑائی میں کسی طرف بھی شریک نہیں تھے۔
اس لیے دونوں گروہ ان کو الزام دے رہے تھے۔
اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں مسلمانوں سے لڑنے کا حکم نہیں دیا تھا۔
یہ تو خود تمہاری غلطی ہے کہ اپنی ہی تلوار سے اپنے ہی بھائیوں کو قتل کررہے ہو۔
بہت سے دوسرے صحابہ بھی حضرت معاویہ ؓاور حضرت علیؓ کے جھگڑے میں شریک نہیں تھے۔
حضرت سہل ؓ کا مطلب یہ تھا کہ جب آنحضرت ﷺنے کافروں کے مقابلہ میں جنگ میں جلدی نہ کی اور ان سے صلح کرلی تو تم مسلمانوں سے لڑنے کے لیے کیوں پلے پڑے ہو۔
خوب سوچ لو کہ یہ جنگ جائز ہے یا نہیں۔
اور اس کا انجام کیا ہوگا۔
جنگ صفین جب ہوئی تو تمام جہاں کے کافروں نے یہ خبر سن کر شادیانے بجائے کہ اب مسلمانوں کا زور آپس ہی میں خرچ ہونے لگا۔
ہم سب بال بال بچے رہیں گے۔
آج بھی یہی حال ہے کہ مسلمانوں میں سیاسی مذہبی باہمی اتنی لڑائیاں ہیں کہ آج کے دشمنان اسلام دیکھ دیکھ کر خوش ہورہے ہیں۔
مسلمانوں کا یہ حال بد نہ ہوتا تو ان کا قبلہ اول مغضوب قوم یہود کے ہاتھ نہ جاتا۔
عرب اقوام مسلمین کی خانہ جنگی نے آج امت کویہ روز بد بھی دکھلا دیا کہ یہودی آج مسلمانوں کے سر پر سوار ہورہے ہیں۔
سہل رضی اللہ عنہ کی حدیث کی مطابقت باب سے یوں ہے کہ جب قریش نے عہد شکنی کی تو اللہ نے ان کو سزا دی اور مسلمانوں کو ان پر غالب کردیا۔
سہل بن حنیف ؓ نے جنگ صفین کے موقع پر جو کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش نے مسلمانوں کی بڑی توہین کی تھی پھر بھی آنحضرت ﷺنے ان سے لڑنا مناسب نہ جانا اور ہم آپ کے حکم کے تابع رہے، اسی طرح آنحضرت ﷺنے مسلمانوں پر ہاتھ اٹھانے سے منع کیا ہے۔
میں کیوں کر مسلمانوں کو ماروں، یہ سہل رضی اللہ عنہ نے اس وقت کہا جب لوگوں نے ان کو ملامت کی کہ صفین میں مقابلہ کیوں نہیں کرتے۔
صفین نامی دریائے فرات کے کنارے ایک گاؤں تھا۔
جہاں حضرت علی اور معاویہ ؓکے درمیان جنگ ہوئی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3182   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3182  
3182. حضرت ابو وائل ٍؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم مقام صفین میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے کہ حضر ت سہل بن حنیفؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا: لوگو! تم خود اپنی رائے کو غلط خیال نہ کرو۔ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ مقام حدیبیہ میں تھے، اگرہمیں لڑنا ہوتا تو اس وقت ضرور لڑتے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں! آیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں! عرض کیا: پھر ہم اپنے دین کے معاملے میں کس کے لیے کمزوری کا اظہار کررہے ہیں؟ کیا ہم واپس چلے جائیں گے، ہمارے اور ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ نہیں کرے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اےابن خطاب! میں اللہ کا رسول ﷺ ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ حضرت عمرؓ وہاں سے چلے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3182]
حدیث حاشیہ:

صفین رَقہ کے مغرب میں دریائے فرات کے کنارے ایک مقام ہے جہاں حضرت معاویہ ؓ اور حضرت علی ؓکے درمیان جنگ ہوئی تھی۔
اس جنگ میں حضرت سہل بن حنیف ؓ حضرت علی ؓ کے لشکر میں تھے لیکن عملی طور پر وہ جنگ میں شریک نہیں تھے تو ان کے ساتھی انھیں عدم دلچسپی کا الزام دے رہے تھے۔
اس وقت انھوں نے لوگوں کو وعظ کرتے ہوئے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں لڑنے کا حکم نہیں دیا۔
یہ تمہاری غلطی ہے کہ تم اپنی تلواروں سے اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنے پر تلے ہوئے ہو۔
جب رسول اللہ ﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار سے لڑنے کے لیے جلدی نہیں کی اور ان سے صلح کرلی تو تم مسلمانوں سے لڑنے کے لیے کیوں پر تول رہے ہو؟ خوب سوچ لو، یہ جنگ جائز ہے یا نہیں؟ اس کا انجام کیا ہوگا؟ 2۔
مذکورہ احادیث پر کوئی عنوان نہیں بلکہ ان کا عنوان سابق سے تعلق ہے کہ جب قریش نےعہد شکنی کی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں سزادی اور مسلمانوں کو ان پر غالب کردیا۔
افسوس کہ آج مسلمانوں کا حال قابل رحم ہے۔
قرون اولیٰ کے مسلمان فتنہ کچلنے کے لیے تلواریں اٹھاتے تھے لیکن ہم مسلمان فتنے کو فروغ دینے کے لیے ہتھیار اٹھائے پھرتے ہیں۔
آج دشمنان اسلام موجودہ صورت حال دیکھ کر خوش ہورہے ہیں۔
مسلمانوں کے باہمی جنگ وقتال اور خانہ جنگی کی وجہ سے یہودیوں نے قبلہ اول پر قبضہ جمارکھاہے اور وہ مسلمانوں کے کندھوں پر سوار ہیں اور ان سے اپنی مرضی کے کام کروارہے ہیں۔
إناللہ وإنا إلیه راجعون۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3182