صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ -- کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ} :
باب: اور اللہ پاک نے فرمایا ”اللہ ہی ہے جس نے مخلوق کو پہلی دفعہ پیدا کیا، اور وہی پھر دوبارہ (موت کے بعد) زندہ کرے گا اور یہ (دوبارہ زندہ کرنا) تو اس پر اور بھی آسان ہے“۔
حدیث نمبر: 3191
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ شَدَّادٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَقَلْتُ نَاقَتِي بِالْبَابِ فَأَتَاهُ نَاسٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، فَقَالَ:" اقْبَلُوا الْبُشْرَى يَا بَنِي تَمِيمٍ، قَالُوا: قَدْ بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ: اقْبَلُوا الْبُشْرَى يَا أَهْلَ الْيَمَنِ إِذْ لَمْ يَقْبَلْهَا بَنُو تَمِيمٍ، قَالُوا: قَدْ قَبِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالُوا: جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ، قَالَ: كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ غَيْرُهُ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَكَتَبَ فِي الذِّكْرِ كُلَّ شَيْءٍ وَخَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَنَادَى مُنَادٍ ذَهَبَتْ نَاقَتُكَ يَا ابْنَ الْحُصَيْنِ فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا هِيَ يَقْطَعُ دُونَهَا السَّرَابُ فَوَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ تَرَكْتُهَا".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے جامع بن شداد نے بیان کیا، ان سے صفوان بن محرز نے اور ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور اپنے اونٹ کو میں نے دروازے ہی پر باندھ دیا۔ اس کے بعد بنی تمیم کے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے بنو تمیم! خوشخبری قبول کرو۔ انہوں نے دوبار کہا کہ جب آپ نے ہمیں خوشخبری دی ہے تو اب مال بھی دیجئیے۔ پھر یمن کے چند لوگ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی یہی فرمایا کہ خوشخبری قبول کر لو اے یمن والو! بنو تمیم والوں نے تو نہیں قبول کی۔ وہ بولے: یا رسول اللہ! خوشخبری ہم نے قبول کی۔ پھر وہ کہنے لگے ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ سے اس (عالم کی پیدائش) کا حال پوچھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ازل سے موجود تھا اور اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ لوح محفوظ میں اس نے ہر چیز کو لکھ لیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ (ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ) ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ ابن الحصین! تمہاری اونٹنی بھاگ گئی۔ میں اس کے پیچھے دوڑا۔ دیکھا تو وہ سراب کی آڑ میں ہے (میرے اور اس کے بیچ میں سراب حائل ہے یعنی وہ ریتی جو دھوپ میں پانی کی طرح چمکتی ہے) اللہ تعالیٰ کی قسم، میرا دل بہت پچھتایا کہ کاش، میں نے اسے چھوڑ دیا ہوتا (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنی ہوتی)۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7418  
´اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس کا عرش پانی پر تھا، اور وہ عرش عظیم کا رب ہے`
«. . . قَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ ارْتَفَعَ فَسَوَّاهُنَّ خَلَقَهُنَّ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ اسْتَوَى عَلَا عَلَى الْعَرْشِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ الْمَجِيدُ الْكَرِيمُ وَالْوَدُودُ الْحَبِيبُ، يُقَالُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ كَأَنَّهُ فَعِيلٌ مِنْ مَاجِدٍ مَحْمُودٌ مِنْ حَمِدَ. . . .»
. . . ابوالعالیہ نے بیان کیا کہ «استوى إلى السماء‏» کا مفہوم یہ ہے کہ وہ آسمان کی طرف بلند ہوا۔ «فسواهن‏» یعنی پھر انہیں پیدا کیا۔ مجاہد نے کہا کہ «استوى‏» بمعنی «على العرش‏.‏» ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ «مجيد» بمعنی «كريم» ۔ «الودود» بمعنی «الحبيب‏.‏» بولتے ہیں۔ «حميد»، «مجيد» ۔ گویا یہ فعیل کے وزن پر ماجد سے ہے اور «محمود»، «حميد‏.‏» سے مشتق ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: Q7418]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: Q7418 کا باب: «بَابُ: {وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ}، {وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ}::»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کے ذریعے عرش کا ذکر فرمایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بڑے دقیق الفاظ میں اس کا مخلوق ہونا بھی ثابت فرمایا ہے اور یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، اس پر ایمان لانا بغیر تاویل کے لازمی ہے، اور تاویل کے طریقہ سے بچنا سلف کا طریقہ ہے۔ تحت الباب امام بخاری رحمہ اللہ نے دس احادیث کا ذکر فرمایا ہے، پہلی حدیث سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں عرش کا ذکر موجود ہے، دوسری حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بھی عرش کا ذکر ہے، تیسری حدیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں «فوق سبع سموات» کے الفاظ ہیں، جس سے عرش کی طرف اشارہ موجود ہے، چوتھی حدیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بھی آسمان کا ذکر ہے، پانچویں حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں عرش کا ذکر ہے، چھٹی حدیث بھی انہی سے مروی ہے اس میں بھی عرش کا ذکر موجود ہے، ساتویں حدیث جو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بظاہر عرش کے الفاظ موجود نہیں ہیں مگر صحیح بخاری میں ہی دوسری جگہ عرش کے الفاظ موجود ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو مکمل کتاب بدء الخلق «باب صفة الشمس و القمر» (رقم الحدیث: 3199) میں ذکر فرمائی ہے، وہاں یہ الفاظ موجود ہیں:
«قال النبى صلى الله عليه وسلم لأبي ذر حين غربت الشمس: أتدري أين تذهب؟ قلت: الله و رسوله أعلم؛ قال: فإنها تذهب حتى تسجد تحت العرش فستأذن ويؤذن لها . . . . .»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جب سورج غروب ہوتا تو کہاں جاتا ہے؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جاتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے۔
لہٰذا اس حدیث کی مطابقت بھی باب سے عرش کے الفاظ کے ساتھ قائم ہوتی ہے، ساتویں حدیث میں سورۃ توبہ کی آیت نقل فرمائی ہے جس کے آخر میں عرش کا ذکر ہے، آٹھویں حدیث جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل فرمائی ہے اس میں بھی عرش عظیم کا ذکر ہے، نویں حدیث جو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بھی عرش کا ذکر ہے، دسویں حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بھی عرش کا ذکر موجود ہے، مگر باب کے تحت جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث نقل فرمائی ہے کہ «المجيد» بمعنی کریم کے ہیں۔ تحت الباب تمام احادیث میں لفظ «المجيد» وارد نہیں ہوا، پھر کس طرح سے احادیث کا باب سے مطابقت ہو گی؟ کیونکہ باب میں «المجيد» کا ذکر موجود ہے۔ اس الجھن کو دور کرتے ہوئے علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے جو کچھ ذکر کیا ہے، وہ ذکر عرش پر مشتمل ہے ماسوائے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اثر کے، لیکن ان کے ساتھ ایک پرلطف بات پر متنبہ کیا ہے، وہ یہ کہ آیت میں «المجيد» قرأت کسر پر عرش کی صفت نہیں، تاکہ یہ تخیل نہ ہو کہ وہ (بھی) قدیم ہے بلکہ (کسر کے ساتھ بھی) یہ اللہ کی صفت ہے بدلیل نافع کی قرأت کے۔ [المتوري: ص 429]، [فتح الباري لابن حجر: 235/14]
لہٰذا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اثر کا تعلق عرش کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت کے ساتھ ہے، پس یہی بتلانا امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 319   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3191  
3191. حضرت عمران بن حصین ؓہی سے رویت ہے، انھوں نے کہا: میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی اونٹنی کو میں نے دروازے ہی پر باندھ دیا تھا۔ آپ کے پاس بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے تو آپ نے ان سے فرمایا: اے بن تمیم! بشارت قبول کرو۔ انھوں نے دو مرتبہ کہا: آپ نے ہمیں خوشخبری دی ہے، اب ہمیں مال بھی دیں۔ اس دوران میں یمن کے چند لوگ حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے ان سے بھی یہی فرمایا: اے یمن والو! خوشخبری قبول کرلو، بنو تمیم نے اسے مسترد کردیا ہے۔ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ہم نے آپ کی بشارت قبول کی ہے۔ پھر وہ کہنے لگے: ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ سے اس عالم کی پیدائش کے حالات پوچھیں۔ آپ نے فرمایا: اول اللہ کی ذات تھی اس کے سوا کوئی چیز نہیں تھی اور اس کاعرش پانی پر تھا اور لوح محفوظ میں اس نے ہر چیزلکھ دی تھی اور اسی نے ہی زمین و آسمان کو پیدا فرمایا۔ ابھی یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3191]
حدیث حاشیہ:

اللہ کا عرش پانی پر تھا۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے پانی کو پیدا کیا۔
پھر عرش کو اس کے اوپر پیدا کیا اور عرش کے نیچے صرف پانی تھا دوسری کوئی چیز نہ تھی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی اور عرش زمین وآسمان سے پہلے پیدا ہوئے ہیں۔

اس حدیث میں ہے۔
اللہ کے سوا کوئی چیز نہیں تھی۔
اس کے معنی ہیں کہ اللہ قدیم اور ازل سے ہے۔
اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی نہ پانی نہ عرش اور نہ روح کیونکہ یہ سب اشیاء غیر اللہ ہیں۔
بہر حال آغاز تخلیق کی ترتیب اسی طرح معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پانی پھر عرش کو پیدا فرمایا اس کے بعد دیگر کائنات کی تخلیق فرمائی۔

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا عرش بھی مخلوق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا محتاج نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3191