صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ -- کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
2. بَابُ مَا جَاءَ فِي سَبْعِ أَرَضِينَ:
باب: سات زمینوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3198
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ أَنَّهُ خَاصَمَتْهُ أَرْوَى فِي حَقٍّ زَعَمَتْ أَنَّهُ انْتَقَصَهُ لَهَا إِلَى مَرْوَانَ، فَقَالَ: سَعِيدٌ أَنَا أَنْتَقِصُ مِنْ حَقِّهَا شَيْئًا أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ ظُلْمًا فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ، قَالَ: ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ لِي: سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ نے کہ ارویٰ بنت ابی اوس سے ان کا ایک (زمین کے) بارے میں جھگڑا ہوا۔ جس کے متعلق ارویٰ کہتی تھی کہ سعید نے میری زمین چھین لی۔ یہ مقدمہ مروان خلیفہ کے یہاں فیصلہ کے لیے گیا جو مدینہ کا حاکم تھا۔ سعید رضی اللہ عنہ نے کہا بھلا کیا میں ان کا حق دبا لوں گا، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس نے ایک بالشت زمین بھی ظلم سے کسی کی دبا لی تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔ ابن ابی الزناد نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، اور ان سے سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے (تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان فرمائی تھی)۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3198  
3198. سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ؓ سے روایت ہے کہ مسماۃ اروی سے ان کا کسی حق کے متعلق جھگڑا ہوگیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے اس کی زمین کم کردی ہے۔ وہ اپنا معاملہ مروان کے پاس لے کرگئی۔ حضرت سعید ؓ نے فرمایا: میں اس کا حق کسی طرح کم کرسکتا ہوں جبکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سناہے: جس شخص نے زمین کا کچھ حصہ بھی ظلم سے لے لیا تو اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ ابن ابی زناد، ہشام سے اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن زید ؓ نے مجھے کہاکہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3198]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے ﴿وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ﴾ کی تفسیر کی ہے کہ آسمانوں کی طرح زمین کے بھی سات طبقات ہیں اور وہ آسمانوں کی طرح ایک دوسرے کے اوپر ہیں۔

تیسری حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ جاہلیت میں محرم کو صفر تک مؤخر کر دیتے تھے۔
قرآن کریم نے ان کے اس عمل کو نسیئی سے تعبیر کیا ہے وہ تقدیم و تاخیر اس لیے کرتے تھے کہ اس مہینے میں جنگ اور لوٹ مار کر سکیں اس لیے وہ محرم کو صفر بنا لیتے۔
وہ ہر سال اسی طرح کرتے اور محرم کو دوسرے مہینے کی طرف منتقل کرتے رہتے حتی کہ وہ اپنے مخصوص وقت میں گھوم آتا جس سے وہ اسے آگے لے گئے تھے۔
الغرض رسول اللہ ﷺ کے حج کے موقع پر مہینے اسی حالت کی طرف لوٹ آئے تھے جس حالت میں اللہ تعالیٰ نے انھیں ترتیب دیا تھا۔
اور حج ذوالحجہ میں ہوا جو اس کا وقت ہے جبکہ حضرت ابو بکر ؓ کا اس سے پہلے حج ذوالقعدہ میں ہوا تھا۔
واللہ أعلم الغرض نص قرآنی سے سات آسمانوں اور انھی کی طرح سات زمینوں کا وجود ثابت ہوا۔
جو ان کا انکار کرتا ہے وہ گویا قرآن کا انکار کرتا ہے۔
اب سات آسمانوں اور سات زمینوں کی کھوج لگانا انسانی اختیارات سے تجاوز کرنا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3198