صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ -- کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
6. بَابُ ذِكْرِ الْمَلاَئِكَةِ:
باب: فرشتوں کا بیان۔
وَقَالَ أَنَسٌ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام عَدُوُّ الْيَهُودِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَنَحْنُ الصَّافُّونَ سورة الصافات آية 165 الْمَلَائِكَةُ.
انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ جبریل علیہ السلام کو یہودی فرشتوں میں سے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ الصافات میں بیان کہ «نحن الصافون» میں مراد ملائکہ ہیں۔
حدیث نمبر: 3207
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، وقَالَ لِي خَلِيفَةُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ وَهِشَامٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَيْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ، وَذَكَرَ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُلِئَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَشُقَّ مِنَ النَّحْرِ إِلَى مَرَاقِّ الْبَطْنِ، ثُمَّ غُسِلَ الْبَطْنُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ مُلِئَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا وَأُتِيتُ بِدَابَّةٍ أَبْيَضَ دُونَ الْبَغْلِ، وَفَوْقَ الْحِمَارِ الْبُرَاقُ فَانْطَلَقْتُ مَعَ جِبْرِيلَ حَتَّى أَتَيْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى آدَمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟، قَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى عِيسَى وَيَحْيَى، فَقَالَا: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّالِثَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟، قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ يُوسُفَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قِيلَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِدْرِيسَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْنَا عَلَى هَارُونَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا عَلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟، قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ فَلَمَّا جَاوَزْتُ بَكَى، فَقِيلَ: مَا أَبْكَاكَ؟، قَالَ: يَا رَبِّ هَذَا الْغُلَامُ الَّذِي بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَفْضَلُ مِمَّا يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ السَّابِعَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟، قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِيٍّ فَرُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: هَذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ يُصَلِّي فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ إِذَا خَرَجُوا لَمْ يَعُودُوا إِلَيْهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ وَرُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى، فَإِذَا نَبِقُهَا كَأَنَّهُ قِلَالُ هَجَرَ وَوَرَقُهَا كَأَنَّهُ آذَانُ الْفُيُولِ فِي أَصْلِهَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَفِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ النِّيلُ وَالْفُرَاتُ، ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلَاةً فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جِئْتُ مُوسَى، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ، قُلْتُ: فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلَاةً، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِالنَّاسِ مِنْكَ عَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ، وَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ فَرَجَعْتُ فَسَأَلْتُهُ فَجَعَلَهَا أَرْبَعِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ، ثُمَّ ثَلَاثِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ فَجَعَلَ عِشْرِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ فَجَعَلَ عَشْرًا فَأَتَيْتُ مُوسَى، فَقَالَ: مِثْلَهُ فَجَعَلَهَا خَمْسًا فَأَتَيْتُ مُوسَى، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ، قُلْتُ: جَعَلَهَا خَمْسًا، فَقَالَ: مِثْلَهُ، قُلْتُ: سَلَّمْتُ بِخَيْرٍ فَنُودِيَ إِنِّي قَدْ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ، عَنْ عِبَادِي وَأَجْزِي الْحَسَنَةَ عَشْرًا، وَقَالَ هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ.
ہم سے ہدبۃ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ اور ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کے درمیان لیٹے ہوئے ایک تیسرے آدمی کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، جو حکمت اور ایمان سے بھرپور تھا۔ میرے سینے کو پیٹ کے آخری حصے تک چاک کیا گیا۔ پھر میرا پیٹ زمزم کے پانی سے دھویا گیا اور اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سواری لائی گئی۔ سفید، خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی یعنی براق، میں اس پر سوار ہو کر جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ چلا۔ جب ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو پوچھا گیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جبرائیل۔ پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اس پر جواب آیا کہ اچھی کشادہ جگہ آنے والے کیا ہی مبارک ہیں، پھر میں آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، آؤ پیارے بیٹے اور اچھے نبی۔ اس کے بعد ہم دوسرے آسمان پر پہنچے یہاں بھی وہی سوال ہوا۔ کون صاحب ہیں؟ کہا جبرائیل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ کوئی اور صاحب بھی آئے ہیں؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، سوال ہوا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں۔ اب ادھر سے جواب آیا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، آنے والے کیا ہی مبارک ہیں۔ اس کے بعد میں عیسیٰ اور یحییٰ علیہ السلام سے ملا، ان حضرات نے بھی خوش آمدید، مرحبا کہا اپنے بھائی اور نبی کو۔ پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کون صاحب ہیں؟ جواب ملا جبرائیل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ بھی کوئی ہے؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، سوال ہوا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں، اب آواز آئی اچھی کشادہ جگہ آئے آنے والے کیا ہی صالح ہیں، یہاں یوسف علیہ السلام سے میں ملا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے فرمایا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہو میرے بھائی اور نبی، یہاں سے ہم چوتھے آسمان پر آئے اس پر بھی یہی سوال ہوا، کون صاحب، جواب دیا کہ جبرائیل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ اور کون صاحب ہیں؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا کیا انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا، جواب دیا کہ ہاں، پھر آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے کیا ہی اچھے آنے والے ہیں۔ یہاں میں ادریس علیہ السلام سے ملا اور سلام کیا، انہوں نے فرمایا، مرحبا، بھائی اور نبی۔ یہاں سے ہم پانچویں آسمان پر آئے۔ یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، پوچھا گیا، انہیں بلانے کے لیے بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں، آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں۔ آنے والے کیا ہی اچھے ہیں۔ یہاں ہم ہارون علیہ السلام سے ملے اور میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، مبارک میرے بھائی اور نبی، تم اچھی کشادہ جگہ آئے، یہاں سے ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی سوال ہوا، کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پوچھا گیا، آپ کے ساتھ اور بھی کوئی ہیں؟ کہا کہ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا گیا، کیا انہیں بلایا گیا تھا کہا ہاں، کہا اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، اچھے آنے والے ہیں۔ یہاں میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، میرے بھائی اور نبی اچھی کشادہ جگہ آئے، جب میں وہاں سے آگے بڑھنے لگا تو وہ رونے لگے کسی نے پوچھا بزرگوار آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اے اللہ! یہ نوجوان جسے میرے بعد نبوت دی گئی، اس کی امت میں سے جنت میں داخل ہونے والے، میری امت کے جنت میں داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔ اس کے بعد ہم ساتویں آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل، سوال ہوا کہ کوئی صاحب آپ کے ساتھ بھی ہیں؟ جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ مرحبا، اچھے آنے والے۔ یہاں میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا میرے بیٹے اور نبی، مبارک، اچھی کشادہ جگہ آئے ہو، اس کے بعد مجھے بیت المعمور دکھایا گیا۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بتلایا کہ یہ بیت المعمور ہے۔ اس میں ستر ہزار فرشتے روزانہ نماز پڑھتے ہیں۔ اور ایک مرتبہ پڑھ کر جو اس سے نکل جاتا ہے تو پھر کبھی داخل نہیں ہوتا۔ اور مجھے سدرۃ المنتہیٰ بھی دکھایا گیا، اس کے پھل ایسے تھے جیسے مقام ہجر کے مٹکے ہوتے ہیں اور پتے ایسے تھے جیسے ہاتھی کے کان، اس کی جڑ سے چار نہریں نکلتی تھیں، دو نہریں تو باطنی تھیں اور دو ظاہری، میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جو دو باطنی نہریں ہیں وہ تو جنت میں ہیں اور دو ظاہری نہریں دنیا میں نیل اور فرات ہیں، اس کے بعد مجھ پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ میں جب واپس ہوا اور موسیٰ علیہ السلام سے ملا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا کر کے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ پچاس نمازیں مجھ پر فرض کی گئی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ انسانوں کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں، بنی اسرائیل کا مجھے برا تجربہ ہو چکا ہے۔ تمہاری امت بھی اتنی نمازوں کی طاقت نہیں رکھتی، اس لیے اپنے رب کی بارگاہ میں دوبارہ حاضری دو، اور کچھ تخفیف کی درخواست کرو، میں واپس ہوا تو اللہ تعالیٰ نے نمازیں چالیس وقت کی کر دیں۔ پھر بھی موسیٰ علیہ السلام اپنی بات (یعنی تخفیف کرانے) پر مصر رہے۔ اس مرتبہ تیس وقت کی رہ گئیں۔ پھر انہوں نے وہی فرمایا اور اس مرتبہ بارگاہ رب العزت میں میری درخواست کی پیشی پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دس کر دیا۔ میں جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو اب بھی انہوں نے کم کرانے کے لیے اپنا اصرار جاری رکھا۔ اور اس مرتبہ اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی کر دیں۔ اب موسیٰ علیہ السلام سے ملا، تو انہوں نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ کر دی ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے کم کرانے کا اصرار کیا۔ میں نے کہا کہ اب تو میں اللہ کے سپرد کر چکا۔ پھر آواز آئی۔ میں نے اپنا فریضہ (پانچ نمازوں کا) جاری کر دیا۔ اپنے بندوں پر تخفیف کر چکا اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں۔ اور ہمام نے کہا، ان سے قتادہ نے کہا، ان سے حسن نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المعمور کے بارے میں الگ روایت کی ہے۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3207  
´واقعہ معراج `
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَيْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کے درمیان لیٹے ہوئے ایک تیسرے آدمی کا ذکر فرمایا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ: 3207]

تخريج الحديث:
[103۔ البخاري فى: 59 كتاب بدء الخلق: 6 باب ذكر الملائكة 3207۔ مسلم 164، ترمذي 3346]

لغوی توضیح:
«الْبُرَاق» مشتق ہے «برق» (بجلی) سے، اس کا یہ نام اس وجہ سے ہے کہ یہ بجلی کی طرح تیز رفتار ہے۔
«بَيْتُ الْمَعْمُوْر» کعبہ کے بالمقابل آسمانوں میں فرشتوں کی عبادت گاہ۔
«قِلَالَ هَجَر» ہجر قبیلہ (جو مدینہ کے قریب واقع ہے) کے مٹکے، «قِلَال» کی واحد «قُلَّة» ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 103   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3207  
3207. حضرت مالک بن صعصعہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں ایک دفعہ بیت اللہ کے نزدیک نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا۔ پھر آپ ﷺ نے دو آدمیوں کے درمیان ایک تیسرے آدمی کا ذکر کیا، یعنی اپنی ذات کریمہ کو دو فرشتوں کے درمیان ذکر کیا تو فرمایا: میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے لبریز تھا۔ میرے سینے کو پیٹ کے آخری حصے تک چاک کیاگیا۔ پھر(میرے) پیٹ (کے اندرونی حصے) کو زمزم کے پانی سے دھویا گیا اوراسے ایمان وحکمت سے بھر دیاگیا۔ اسکے بعد میرے پاس ایک سواری لائی گئی جس کا رنگ سفید، خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی تھی، یعنی براق، چنانچہ میں اس پر سوار ہوکرحضرت جبرئیل ؑ کے ہمراہ چل پڑا۔ جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبرئیل ؑ نے آسمان کے نگران فرشتے سے (دروازہ) کھولنے کو کہا تو اس نے پوچھا: کون ہے؟ کہاگیا: جبرئیل ؑ۔ پوچھا گیا: آپ کے ہمراہ کون ہے؟ کہا گیا کہ محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا انھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3207]
حدیث حاشیہ:
یہ طویل حدیث واقعہ معراج سے متعلق ہے۔
امام بخاری ؒ اس کو یہاں اس لیے لائے کہ اس میں فرشتوں کا ذکر ہے اور یہ فرشتے بے شمار ہیں۔
دوسری حدیث میں ہے کہ میں آسمان میں بالشت بھر جگہ خالی نہیں جہاں ایک فرشتہ اللہ کے لیے سجدہ نہ کررہا ہو۔
واقعہ معراج کا آغاز حطیم سے ہوا۔
جہاں نبی اکرم ﷺ حضرت حمزہ ؓ اور حضرت جعفر ؓکے درمیان سوئے ہوے تھے۔
وہاں سے آپ کا یہ مبارک سفر براق کے ذریعہ شروع ہوا، جو برق بمعنی بجلی سے مشتق ہے۔
معراج برحق ہے اس کا منکر گمراہ اور خاطی ہے۔
تفصیل کے لیے کتب شروح ملاحظہ ہوں۔
وَقَالَ القَاضِي عِيَاض:
اخْتلفُوا فِي الْإِسْرَاء إِلَى السَّمَوَات، فَقيل:
إِنَّه فِي الْمَنَام، وَالْحق الَّذِي عَلَيْهِ الْجُمْهُور أَنه أسرِي بجسده. فإن قیل بین النائم والیقظان یدل علی أنه رؤیا نوم قلنا لاحجة فیه إذ قد یکون ذالك حال أول وصول الملك إلیه ولیس فیه مایدل علی کونه قائماجی القصة کلها۔
وقال الحافظ عبدالحق في الجمع بین الصححین وماروی شریك عن أنس أنه کان نائما فهو زیادة مجهولة وقد روی الحفاظ المتقون والأئمة المشهورون کابن شهاب وثابت البناني و قتادة عن أنس و لم یأت أحد منهم بها وشریك بالحافظ عنه أهل الحدیث۔
(فتح الباري)
اس طویل عبارت کا خلاصہ یہی ہے کہ معراج جسمانی ہی حق ہے۔
آپ ﷺ کی تشریف آوری پر حضرت موسیٰ ؑ کا رونا اس خوشی کی بنا پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو مختصر عمر دینے کے باوجود اپنی نعمتوں سے کس قدر نوازا اور کیسے کیسے درجات عالیہ عطا فرمائے۔
یہ رونا فرحت سے تھا نہ کہ حسد اور بغض سے۔
فإن ذالك لایلیق بصفات الأنبیاء والأخلاق الأجلة من الأولیاء قاله الخطابي۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3207   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3207  
3207. حضرت مالک بن صعصعہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں ایک دفعہ بیت اللہ کے نزدیک نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا۔ پھر آپ ﷺ نے دو آدمیوں کے درمیان ایک تیسرے آدمی کا ذکر کیا، یعنی اپنی ذات کریمہ کو دو فرشتوں کے درمیان ذکر کیا تو فرمایا: میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے لبریز تھا۔ میرے سینے کو پیٹ کے آخری حصے تک چاک کیاگیا۔ پھر(میرے) پیٹ (کے اندرونی حصے) کو زمزم کے پانی سے دھویا گیا اوراسے ایمان وحکمت سے بھر دیاگیا۔ اسکے بعد میرے پاس ایک سواری لائی گئی جس کا رنگ سفید، خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی تھی، یعنی براق، چنانچہ میں اس پر سوار ہوکرحضرت جبرئیل ؑ کے ہمراہ چل پڑا۔ جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبرئیل ؑ نے آسمان کے نگران فرشتے سے (دروازہ) کھولنے کو کہا تو اس نے پوچھا: کون ہے؟ کہاگیا: جبرئیل ؑ۔ پوچھا گیا: آپ کے ہمراہ کون ہے؟ کہا گیا کہ محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا انھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3207]
حدیث حاشیہ:

یہ طویل حدیث واقعہ معراج سے متعلق ہے۔
امام بخاری ؒ نے اسے یہاں اس لیے بیان کیا ہے کہ اس میں فرشتوں کا ذکر ہے کہ وہ اس قدر کثرت سے ہیں جو حدود وشمار سے باہر ہیں۔
کثرت کا اندازہ اس امر سے لگایاجاسکتا ہے کہ بیعت المعمور میں ہرروز ستر ہزارفرشتے داخل ہوتے ہیں۔
ان میں جب کوئی فرشتہ عبادت کرکے باہر نکلتاہے تو قیامت تک اسے دوبارہ داخل ہونے کا موقع نہیں ملے گا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے:
آسمان میں چار انگلیوں کے برابر جگہ ایسی نہیں جہاں اللہ کے حضور فرشتہ سجدہ ریز نہ ہو۔
(جامع الترمذي، الزھد، حدیث: 2312)

امام بخاری ؒ نے ملائکہ کا ذکر حضرات انبیاء ؑ سے پہلے کیا ہے، حالانکہ اس امر پر اجماع ہے کہ حضرت انبیائے کرام ؑ ملائکہ سے افضل ہیں؟ اس کی تین وجوہات بیان کی جاتی ہیں:
۔
ملائکہ کی خلقت پہلے ہے، یعنی انھیں انسانوں سے پہلے پیدا کیا گیا ہے۔
اس اعتبار سے ان کا ذکر پہلے کردیا۔
۔
قرآنی آیات اور متعدد احادیث میں ان کا ذکر انبیائے کرام ؑ سے پہلے جیسا کہ آیت کریمہ میں ہے:
ہم سب اللہ پر،اس کے فرشتوں پر،اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔
(جامع الترمذي، الزھد، حدیث: 2312)
۔
فرشتے، اللہ تعالیٰ اور انبیائے کرام ؑ کے درمیان ایک واسطے کی حیثیت رکھتے ہیں، بنابریں مناسب معلوم ہوا کہ ان کا ذکر انبیائے کرام ؑ سے پہلے کیا جائے۔
بہرحال ملائکہ کے حالات اور ان کی کثرت کے متعلق بہت سی احادیث کتب حدیث میں مروی ہیں۔
ان کی دوقسمیں ہیں:
ایک تو وہ ہیں جو ہروقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں، گویا وہ ذات حق کی معرفت میں مستغرق ہیں۔
انھیں ملائکہ مقربین کہا جاتا ہے۔
اور دوسری وہ قسم ہے جو آسمان سے زمین تک قضا و قدر کے فیصلوں کے مطابق امورکو انجام دیتے ہیں۔
ان کی مختلف ڈیوٹیاں ہیں جن کا ذکرقرآن وحدیث میں موجود ہے۔
معراج سے متعلقہ دیگر مباحث آئندہ بیان ہوں گے۔
بہرحال معراج برحق ہے اور اس کا منکر گمراہ اور دین سے خارج ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3207